آسیہ مسیح ایک عیسائی خاتون جو توہین رسالت کی جرم میں گرفتار ہوئی تھی۔ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پر جرم ثابت نہ ہونے پر اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے پر پورے ملک کے مذہبی حلقوں نے ردعمل ظاہر کیا۔ احتجاجی مظاہرے کئے۔ ایک طرف سیدھے سادھے خدا سے ڈرنے والے عام لوگوں نے اللہ کے سامنے سربسجود ہوکر توبہ کی کہ یا خدا ‘کہیں اس گستاخ عورت کو رہا کرنے کی سزا ہمیں نہ دی جائے۔ حکومت اور عدلیہ کی گناہوں کی وجہ سے ہم پر عذاب مسلط نہ ہوجائے۔ دوسری طرف کچھ مذہبی ٹھیکیداروں نے اس معاملے پر اپنا سیاست چمکانا شروع کردی۔
آسیہ مسیح کو 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کا کس توہین رسالت جیسے بہت نازک نوعیت کا تھا اس لیے یہاں پر اس کی خلاصی بہت مشکل بلکہ ناممکن تھی۔ 2010 میں ملزمہ کو سیشن کورٹ کی طرف سے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ اس کے شوہر نے لاہور ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کردی تو لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اسے سزائے موت سنائی دی۔
اسی دوران میں یہ مقدمہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکا اور انٹرنیشنل میڈیا بھی اسے زیر بحث لایا۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے لئے مغربی حکومتوں نے بڑی کوششیں کیں۔ ڈھیر ساری این جی اوز نے آسیہ بی بی کی رہائی کی مہم چلائی تھی۔ “فری آسیہ” کے نام سے انگریزی زبان میں ایک نغمہ بھی نشر کیا گیا جیسے مختلف چینلوں نے چلایا۔ پاکستان ‘ برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کے عیسائیوں نے آسیہ کی رہائی کے لئے آواز بلند کی۔
ان کی مذہبی محفلوں میں آسیہ بی بی کی رہائی کے لئے دعائیں کی گئیں اور آخر کار وہ ایک سزا یافتہ خاتون جس کو پاکستان کی دو عدالتوں نے موت کی سزا سنائی گئی تھی ‘ کو رہا کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کی رہائی کا حکم دے دیا۔
دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان بیٹی “ڈاکٹر عافیہ صدیقی ” دس سال سے امریکی جیل میں قید ہے اور قسم قسم کے مظالم سہتے جارہی ہے۔ دراصل وہ 2003 میں اغوا ہوکر قید ہوئی تھی۔ لیکن امریکہ کے مطابق عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا رہاہے کہ ایک نو مسلم صحافی “ریڈلی” نے انکشاف کیا کہ عافیہ صدیقی افغانستان کے بگرام جیل میں قید تھی جس کے فوراً بعد اسے امریکی جیل منتقل کردیا گیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیسے ایک ایٹمی طاقت کی حامل ریاست سے ایک قابل ترین خاتون عافیہ صدیقی کی شکل میں اغوا ہوتی ہے اور ریاست کے ادارے خاموش ہوتے ہوئے بے خبری کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ جب امریکہ نے یہ تصدیق کر لی کہ عافیہ صدیقی کو امریکہ نے افغانستان سے گرفتار کرلیا ہے اور اب امریکی جیل میں قید ہے تو بحیثیت مسلمان ہماری کونسی حکومت نے اس کی رہائی کے لیے بات تک کی ہے؟
ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں جو پیسے یا اقتدار کی لالچ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں’ انہوں نے اپنی مسلمان بہن کو امریکی جیل سے رہائی کے لیے کوئی کوشش کی ہے ؟ نہیں ؛ کیونکہ ہمارے لوگوں کی ذہن سازی ہی ایسی ہوئی ہے کہ سب سے زیادہ درجہ ڈالروں کو دیتے ہے جس کے عوض یہ کچھ بھی کرلیتے ہیں۔ عزت اور غیرت نامی چیزوں کو یہ جانتے تک نہیں۔ دوسری قومیں ہماری کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم کو ذلیل کر نے کی پوری کوششیں کرتی ہیں اور ہم ہیں کہ کچھ ذاتی مفادات کے لیے اپنی ملکی سالمیت پر بھی سمجھوتے کرلیتے ہیں۔
آسیہ مسیح ایک پاکستانی عیسائی خاتون ہے اور توہین رسالت جیسے سنگین جرم میں گرفتار ہوئی تھی۔لیکن عیسائی ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے عیسائیوں نے اس کی رہائی کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے عملی اقدامات کی اور اسے رہا کروایا۔ دوسری طرف عافیہ صدیقی ایک مسلمان خاتون ہے’ پاکستانی ہے اور اس نے کسی مذہب کی توہین یا گستاخی بھی نہیں کی ہے لیکن یہاں پر کسی بھی حکومت یا سیاسی و سماجی تنظیم نے اس کی رہائی کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ بحیثیت مسلمان انسان مایوس ہوجاتا ہے۔
قارئین ؛ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے صرف “جماعت اسلامی” اور “پی ٹی آئی” ہی نے اٹھائی ہے۔ اب ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے۔ امید ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو رہا کرائے گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور ملک میں مذہبی و سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ امریکہ کی جیلوں میں عافیہ صدیقی سمیت بہت سے پاکستانی قید ہے جو ان کا کیس بھی اتنا سخت اور نازک نہیں ہوگا جتنا آسیہ بی بی کا ہے۔ لہذا اگر پوری دنیا کے عیسائی آسیہ مسیح کے لیے ایک ہوکر اسے آزاد کراسکتے ہیں تو بحیثیت مسلمان؛ ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو کیوں آزاد نہیں کراسکتے؟
قارئین؛ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کو اپنی استطاعت کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیئے۔