بیوہ عورت کو معاشرہ دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیں دیتا ، ایسی وجوہات جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے

بیوہ سے مراد ایسی عورت ہے جس کے شوہر کا انتقال اس کی زندگی میں ہی ہو جاتا ہے ہمارے معاشرے میں ہندؤں کے ساتھ رہنے کے سبب بیوی عورت کو ایسے کئی اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا تعلق اسلامی قوانین سے قطعی نہیں ہے البتہ ان کے شواہد ہمیں ہندو معاشرے میں واضح طور پر نظر آتے ہیں

بہت ساری دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں بیوہ عورت کی دوسری شادی کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اس حوالے سے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ بیوہ عورت دوسری شادی نہ کرے جب کہ اس حوالے سے ارشاد خداوندی ہے کہ

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌO

’’اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مواخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہےo‘‘

القرآن، البقره، 2 : 234

اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اتنے واضح احکامات کے باوجود کیا وجہ ہے کہ معاشرہ بیوہ کی دوسری شادی کے آڑے آتا ہے

بیوہ کے بچے

بیوہ کی دوسری شادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے اس شوہر کے بچے ہوتے ہیں جو کہ یتیم ہوتے ہیں ان یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کو باپ کی شفقت دینا اگرچہ بہت ثواب کی بات ہے مگر معاشرہ عورت سےاس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان بچوں کے سر پر سوتیلے باپ کا سایہ نہ ڈالنے دے اور ان کی پرورش تمام تر مشکلات کے باوجود اکیلے ہی کرۓ

بیوہ کی جائیداد

سورۃالنسا میں فرمان ربی ہے کہ

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے

شوہر کے مرنے کے بعد بھی بیوہ اپنے شوہر کی جائیداد کی وارث ہے مگر ہمارے معاشرے میں بیوہ کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ اگر وہ دوسری شادی کر لے گی تو اس صورت میں اس کو جائيداد کا یہ حق چھوڑنا پڑے گا اس وجہ سے بیوہ دوسری شادی سے اجتناب برتتی ہے

بیوہ کی منحوسیت

ہندوستانی معاشرے کی طرح ہم لوگ بیوہ کو شوہر کے ساتھ جلا کر مارتے تو نہیں ہیں مگر کسی قسم کی کمی بھی نہیں چھوڑتے ہیں اسی وجہ سے وہ عورت جس کا شوہر مر چکا ہو اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے شادی بیاہ و دیگر خوشی کے مواقعوں پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے بیوہ دور رہے اور اگر کوئی مرد بیوہ سے شادی کا خواہشمند بھی ہو تو اس کو یہ کہہ کر روکا جاتا ہے کہ ایک شوہر کو تو کھا چکی ہے منحوس ہے وغیرہ وغیرہ

یہ تمام کچھ ایسے معاشرتی رواج اور سوچ ہے جس کے سبب ہم سب اسلامی قوانین کی روگردانی کرتے ہوۓ ایک بیوہ کے زندہ رہنے اور خوش رہنے کا حق اس سے چھین لیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے