قرآن خاص طور پر کزن کے ساتھ شادی کا حکم کیوں دیتا ہے ؟ قرآن نے پانچ ایسے فوائد بتا دیۓ جس نے سائنسی تحقیق کی نفی کر ڈالی

جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق کزن میرج سے اجتناب برتنا چاہیۓ کیوں کہ سائنسدانوں کے مطابق اس شادی کے نتیجے میں بچے جسمانی و ذہنی معزوری کے ساتھ پیدا ہونے کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے اس وجہ سے اس خطرے سے بچنے کے لیۓ سائنسدانوں کا یہ مانناہے کہ کزن کے ساتھ شادی نہیں کرنی چاہیۓ

کزن سے مراد خالہ ذاد ،پھوپھی زاد ، چچا زاد اور ماموں زاد سے ہے ان کے بارے میں سائنس دان سختی سے اس بات سے روکتے ہیں کہ ان رشتوں سے شادی آنے والی زندگی میں بچوں کے حوالے سے شدید مسائل کا سبب بن سکتی ہے جب کہ ا گر اسلام کا مطالعہ کیا جاۓ تو ہمیں اس بات سے اگاہی حاصل ہوتی ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر اس حوالے سے یکسر مختلف ہے

قرآن میں کزن کے ساتھ شادی کرنے کا خاص حکم دیا گیا ہے

مگر اگر اس حوالے سے اسلام کے نقطہ نظر کو دیکھا جاۓ تو ہیمں یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں ارشاد ربی ہے کہ

اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو آپ کی مملوکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوا دی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خالاؤں کی بیٹیاں  سورۃ الاحواب آیت 50

اور قرآن نے جب یہ حکم دیا ہے تو اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالی یہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے گھر میں معزور بچے پیدا ہوں

قرآن رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے

اسلام دین فطرت ہے اور قراں اس کی تشریح کے لیۓ بھیجا گیا ہے اور قرآن میں اللہ تعالی نے واضح طور پر لوگون کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کا حکم دیا ہے اور خاص طور پر اپنے رشتے داروں کے ساتھ جڑنےکے خصوصی احکامات موجود ہیں

’ اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے ‘‘

شریعت کے مطابق لڑکی کا نکاح غیر کفو کے ساتھ نہ کیا جاۓ

اسلام میں ذات پات کا نظام نہیں ہے مگر نکاح میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ لڑکی کا نکاح اس سے نیچے نسب میں نہ کیا جاۓ تاکہ لڑکی شوہر کے نچلے نسب کے باعث اس کی اطاعت سے اجتناب نہ برتے اور اچھی ازدواجی زندگی کے لیۓ یہ ضروری ہے کہ لڑکی اپنے شوہر کو اپنے سر کا تاج سمجھے اس کی عزت کرۓ اس کی اطاعت کرۓ مگر اگر شوہر کا نسب بیوی سے کمتر ہو گا تو بیوی کے ذہن و دل میں اس کے احترام میں کشمکش ہو گی اس کشمکش سے بچنے کے لیۓ اسلام میں یہ حکم واضح طور پر موجود ہے کہ غیر کفو کے ساتھ لڑکی کا نکاح نہ کیا جاۓ

غیر خاندان میں شادی ایک جوا ہوتی ہے

انسان کی فطر تمیں ہے کہ جب بھی وہ اجنبی لوگوں سے ملتا ہے تو اس کے سامنے وہ اپنی شخصیت کے صرف مثبت پہلو پیش کرتا ہے یہی معاملہ شادی کے رشتے کے دوران اجنبی لوگوں کے حوالے سے ہوتا ہے جو کہ سج سنور کر اپنا صرف اور صرف اچھا رخ پیش کرتے ہیں اور ان کے منفی پہلو شادی کے بعد سامنے آتے ہیں مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے جب کہ کزن سے ساتھ شادی کی صورت میں آپ کے سامنے اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں اور آپ ان کے لیۓ ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں

کزن سے شادی کے ٹوٹنے کے امکانات کم ہوتے ہیں

کزن سے شادی درحقیقت دو افراد کی شادی نہیں ہوتی بلکہ اس میں پورا خاندان شامل ہوتا ہے جس کے سبب اگر میاں بیوی میں کچھ مائل بھی ہوں تو ان کو خاندان کے بڑے آپس میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں اور اس طرح یہ رشتہ بکھرنے سے رک جاتا ہے جب کہ اس کے برخلاف خاندان سے باہر شادی کی صورت میں ایسا ہونا مشکل ہوتا ہے

ان تمام نظریات کے ساتھ ساتھ یہ بات خاص طور پر پیش نظر رکھنی چاہیۓ کہ اللہ تعالی نے واضح طور پر جن رشتوں کو انسان کے لیۓ حلال کیا ہے ان کو سائنسی تحقیق کی بنا پر ہم خود پر حرام کر کے باہر سے حلال رشتوں کی تلاش میں لگۓ ہیں جو کہ قطعی طورپر مناسب نہیں ہے