کراچی کے پوش علاقے میں ایسے نشے کے استعمال کا انکشاف ہو گیا جس کو استعمال کرنے والے کا گوشت مرنے کے بعد جسم سے کٹ کٹ کر گر جاتا ہے

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ان دنوں نشے کی ایک نئی قسم دستیاب ہے، جس کا شکار زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوان بن رہے ہیںکرسٹل میتھ اصل میں کرسٹل میتھام فیٹامائین کا مخفف ہے، یہ ایک انتہائی طاقتور تحرک پیدا کرنے والی میتھام فیٹامائین کی شکل ہے جس کی عموماً دھواں اندر کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس کو سانس کے ذریعے اندر کھینچ کر یا سوئی کے ذریعے بھی جس میں داخل کیا جاتا ہے

گلی کوچوں میں کرسٹل میتھ کی مقبولیت کا سبب اس کا دوسری متبادل منشیات مثلاً کریک اور کوکین وغیرہ سے سستاہونا ہے۔ اس کو عام طور پر آئس ،گلاس یا چاک اور بلیڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے

اس نشے کا سب سے بڑا شکار نوجوان نسل کے طالب علم ہیں جو امتحانات کے قریب تیاری کے خیال سے نیند نہ آنے کے لیۓ اس کو دوا کے طور پر استعمال کرتا ہے اور پھر اس کی لت میں بری طرح مبتلا ہو جاتا ہے

کرسٹل میتھ کے اثرات

کرسٹل میتھ کے اہم اثرات میں غیرمعمولی طور سے فعالیت، خوداعتمادی میں اضافہ اور چوکسی شامل ہیں اور زیادہ مقدار میں استعمال سے یہ مسحورکن احساس بھی پیدا کردیتی ہے۔ یہ اثرات کوکین کے مقابلے میں زیادہ دیر تک قائم رہتے ہیں تاہم اس کو فروخت کرنے والے ایک شخص کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے اثرات کے تحت اگر کوئي شخص مر جاۓ تو اس کی لاش پر جیسے ہی پانی ڈالا جاتا ہے اس کے جسم پر موجود گوشت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں ہڈیوں سے جدا ہو کر گرنے لگتا ہے

کرسٹل کے متاثرین

اس نشے کے استعمال کرنے والوں میں ایک جانب تو بڑی تعداد پوش علاقے کے نوجوان ہیں جو اس نشے کے بے رنگ اور بے بو ہونے کے سبب اس کا استعمال انتہائی آسانی سے کر سکتے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق پوش علاقوں کے تعلیمی ادارے اس کی کھپت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں

اس کے علاوہ جرائم پیشہ افراد نوجوان لڑکوں کو اغوا کرنےکے بعد اس کا عادی بناتے ہیں اور اس کے بعد ان لڑکوں سے مختلف قسم کی وارداتیں کرواتے ہیں کیوں کہ اس کے نشے کی حالت مین انسان ہر قسم کے ڈر سے آزاد ہو جاتا ہے اور بلا خوف کوئي بھی واردات کر گزرتا ہے

کرسٹل میتھ کی تیاری

کرسٹل میتھ میں استعمال ہونے والے اجزا کا حصول نسبتاً آسان ہے اور ان کا شمار دوکانوں سے ملنے والی عام استعمال کی چیزوں میں ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی جُز سوڈوفیڈورائین عام دوائوں کے دوکانوں پر دستیاب ہوتا ہے۔ جس کو سرخ فاسفورس اور نیلے آیوڈین کے ساتھ گرم کر کے کرسٹل میتھ بنائی جاتی ہے۔

 

اس کے اندر استعمال ہونے والے کیمیلز جلد آگ پکڑ لیتے ہیں اس لئے اس کو بنانے کا عمل نسبتاً خطرناک ہو تا ہے۔ درحقیقت ان کیمکلز میں لگنے والی آگ کے باعث ہونے والے دھماکوں سے ہی اہلکاروں کو ان لیبز کے بارے میں علم ہوتاہے

پاکستان میں  تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوۓ اس نشے کے تناسب کے سبب قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آگۓ ہیں اور انہوں نے کئي ایسے افراد کو گرفتار کیا جو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اس نشے کی فروخت میں ملوث تھے اس کو استعمال کرنے والے طالب علموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ان تعلیمی اداروں پر چھاپے مارے جائیں تو ہر دوسرے طالب علم کے پاس سے یہ موذی نشہ برآمد ہو گا جو کہ حظرے کا ایک نشان ہے