کیا ایک اچھا دوست اچھا شوہر نہیں ہو سکتا ؟ ایک لڑکی کا معاشرے سے سوال

میں تمھیں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں اس کے سامنے اس کا سب سے بہترین دوست اس کا ساتھی اس سے جدائی کا فیصلہ سنا رہا تھا اور وہ آنکھوں میں تعجب لیۓ بس اسے دیکھے جا رہی تھی وہ اس کا ہاتھ تھام کر یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ طلاق سے اس کا اس سے تعلق ختم ہو گیا تو کیا دوستی کو بھی طلاق سے ختم کیا جا سکتا ہے

اس کی آنکھوں کے سامنے ایک پل میں منظر بدل گیا وہ امی سے مسلسل ضد کر رہی تھی کہ اس کو اسکول والوں کے ساتھ پکنک پر جانا ہے اور امی مستقل طور پر اسے منع کیۓ جا رہی تھیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور اس کو سمندر پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتیں ایسے میں وہ پتہ نہیں کہاں سے آگیا اور ہمیشہ کی طرح اس کی حمایت میں بولنے لگا اور اس نے امی کو اس طرح قائل کر لیا کہ امی کو اجازت دیتے ہی بن پڑی

وہ ایسا ہی تھا اس دنیا میں اس کا سب سے بڑا دوست اس کے چچا کا بیٹا علی کے ساتھ اس کا بچپن کا ساتھ تھا اگرچہ وہ اس سے صرف دو سال ہی بڑا تھا مگر اس نے اس بڑے پن کو کبھی جتایا نہیں تھا ہمیشہ اس کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستی رکھی تھی بچپن کے دور سے نکل کر جب وہ جوانی میں آۓ تھے تو ان کی دوستی اور بھی مضبوط ہو گئی تھی

جب تک وہ علی کو اپنے سارے دن کی روداد نہ سنا لیتی اس کو چین نہ آتا اور یہی حال علی کا بھی تھا ان دونوں کو ایک دوسرےکے ہوتے ہوۓ کسی اور دوست اور ساتھی کی ضرورت کبھی پڑی ہی نہ تھی وقت کے ساتھ ساتھ جب علی نے اپنی تعلیم مکمل کر لی اور وہ بھی گریجویشن کر رہی تھی گھر میں ان دونوں کی شادی کی بات شروع ہو گئي

جب اس کے کانوں تک یہ بات پہنچی کہ اس کے گھر والے اس کی شادی علی سے کرنا چاہ رہے ہیں تو وہ ایک دم ہتھے سے اکھڑ گئی اس نے علی کو کبھی ایک دوست کے علاوہ کسی اور نظر سے نہ دیکھا تھا اور وہ علی کے ساتھ شادی کر کے اپنے سب سے پیارے دوست کی دوستی کو کھونا نہیں چاہتی تھی مگر وہ اپنی بات کسی کو سمجھا نہیں پا رہی تھی

آخر تنگ آکر اس نے اس بارے میں علی سےہی بات کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے سامنے اپنا سارا مسلہ رکھ دیا سب کچھ سن کر علی اتنا ہنسا کہ اس کی آنکھوں میں پانی آگیا اس نے کہا کہ یہ کس نے کہا کہ شادی کے بعد میں تمھارا اچھا دوست نہیں رہوں گا ارے شادی کے بعد تو ہم اور بھ اچھے دوست بن جائیں گے علی کے سمجھانے پر اس نے ڈرتے ڈرتے ہاں کر دی

شادی کی پہلی رات ہی جب علی نے اس کا گھونگھٹ اٹھا کر اس کو منہ دکھلائی میں سونے کے کنگن پہنا کر اس کے ہاتھوں کو چوما تو وہ ایک دم ڈر گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا جس پر علی کا موڈ ایک دم سے خراب ہو گیا اور لگا کہ ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ آگیا

اس نے اس فاصلے کو سمیٹنے کے لیۓ علی سے بات کرنے کی کوشش کی مگر علی نے زیادہ بات نہیں کی اور کروٹ بدل کر سونے کے لیۓ لیٹ گیا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا کرے رات کے کسی پہر اس کی بھی آنکھ لگ گئي صبح ان دونوں کی خاموشی اور سوجی ہوئی آنکھوں کو سب نے محسوس کیا مگر تھکن سے معمور کرتے ہوۓ کسی نے کچھ نہ کہا

اس کے بعد ان کے درمیان گزرتے وقت کے ساتھ یہ فاصلہ بڑھتا ہی گیا وہ جتنا علی کے قریب آنے کی کوشش کرتی علی اس سے دور بھاگ جاتا اس نے کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر علی نے بات ٹال دی آخر کار اس نے بھی خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا وہ کہیں سے بھی نیا شادی شدہ جوڑا نہیں لگتا تھا شادی کے شروع دن کے چونچلے ناز نخرے کچھ بھی تو نہ تھا ان کی زندگی میں

ایک رات اس نے اپنی انا کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ علی کے پیروں میں گر کر اس سے معافی مانگ لی اس دن بظاہر سب ٹھیک ہو گیا علی نے اس کو ایک بیوی کی حیثیت سے اپنا لیا ان کے درمیان میاں بیوی والا تعلق بن گیا اب وہ اس کے کھانے پینے کپڑے استری کرنے سے لے کر سارے کام کرنے لگی مگر اس کو ایک چپ لگ گئی علی اس سے بات کرتا تو وہ جواب دے دیتی مگر خود سے اس نے کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا تھا

اس کو افسوس صرف اس بات کا تھا کہ اس کا دوست اس کو سمجھنے سے قاصر تھا ،لی اس کو کہتا تھا کہ میچور ہو جاؤ بچپن کے چزنچلے اور دوستیاں ساری عمر ساتھ نہیں چلتیں میچور لوگوں کی زندگی میں دوستیوں سے زیادہ رشتے اہم ہوتے ہیں مگر وہ خود کو یہ سمجھا نہیں پاتی تھی کہ دوستی کی عمر ہوتی ہے ایک عمر کے بعد دوستی مر جاتی ہے

علی کچھ بدلا بدلا سا رہنے لگا تھا شائد وہ اس کی خاموشی سے تنگ آگیا تھا اب وہ موبائل میں گھسا رہتا اس سے فالتو بات بھی نہ کرتا اور آج آخر کار علی نے اسے کہہ دیا کہ وہ مذید اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا شادی کے دو سال بعد ہی علی نے اس سے رشتہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کی دوستی کو طلاق دے دی