پاکستانی سیاست ایک بار پھر بدزبانی کی زد میں فیصل واوڈا نے عظمی بخاری کو ڈھیٹ اور بے غیرت کیوں قرار دے ڈالا

پاکستان کے قیام کے وقت سیاست کا شمار ایک معزز پیشہ میں ہوتا تھا جس میں زیادہ تر افراد کا تعلق انتہائی اعلی تعلیم یافتہ طبقہ فکر سے تھا جن میں قائد اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان ، سردار عبدالرب نشتر محترمہ فاطمہ جناح یہ سب افراد نہ صرف بہت تعلیم یافتہ تھے بلکہ معاشرتی طور پر بھی انتہائي مہزب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے

مگر گزشتہ کچھ دہائيوں سے جب سے سیاست میں کرپشن کا عمل دخل ہو گیا ہے وہاں کامیاب سیاست دانوں کا پیمانہ ان کی تعلیم و تہزیب کے بجاۓ دولت نے لے لی ہے جو جتنا زیادہ مالدار ہوتا ہے اتنی ہی بڑی کرسی کا حامل سمجھا جاتا ہے اور اتنے ہی بڑے عہدے پر براجمان ہوتا ہے

دوسری جانب میڈیا نے ان موقع پرست سیاست دانوں کو اپنی دکانیں چمکانے کے لیۓ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اپنے چینلز کی ٹی آر پی کو بڑھانے کے لیۓ جو سیاست دان بد تمیز اور بد زبان ہوتا ہے ایسے سیاست دان کو تمام میڈیا چینلز زیادہ سے زیادہ ٹائم دیتے ہیں اس کی مثال ماضی میں طلال چوہدری اور شیخ رشید اور حالیہ دنوں میں فیصل واڈا ہیں

اس کا عملی اظہار گزشتہ دن ایک ٹی وی شو میں دیکھنے میں آيا جس میں فیصل واوڈا نے پہلے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں پر یہ الزام لگایا کہ مسلم لیگ ن کے ماننے والوں نے بے شرمی ،بے حیائی اور ڈھٹائی کا کورس کر رکھا ہوتا ہے فیصل واوڈا کا مذید یہ بھی کہنا تھا یہ یہ بے شرمی مسلم لیگ ن والوں کے خون میں پیدائشی ہے یا اس کا کورس انہوں نے کہیں سے کر رکھا ہوتا ہے یا پھر حکومت کر کر کے ان کے اندر یہ ڈھٹائی پیدا ہو گئی ہے

جواب میں مسلم لیگ کی رہنما عظمی بخاری نے انتہائي غصے میں فیصل واوڈا کو ٹوکا اور کہا کہ بہت برداشت کر لی ہے تمھاری بدتمیزی اب تم اپنی زبان کو قابو میں کرواور اپنی تربیت مت دکھاز اپنی حدود میں رہو

اس موقع پر پروگرام کا میزبان جو دل ہی دل میں اپنی ٹی آد پی کے چھکے لگنے پر بغلیں بجا رہا تھا بظاہر بھولی سی شکل بنا کر دونوں پارٹی کے ان رہنماؤں سے درخواست کرتا ہے کہ براہ مہربانی اس قسم کی زبان استعمال نہ کریں حالانکہ اپنے پروگرام میں ان دونوں کو بلانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ جانتا تھا کہ دونوں پارٹیوں کے یہ افراد فورا جزباتی ہونے والے ہیں

اس کے بعد ان دونوں کی تو تو میں میں اس حد تک جاپہنچی کہ فیصل واوڈا نے ان کو مشورہ دے ڈالا کہ وہ گھر جا کر چولہا جھونکیں جب کہ دوسری جانب عظمی بخاری بھی فیصل واوڈا کو سیاسی شعور نہ ہونے کے طعنے دے رہی تھیں

اس قسم کی بدزبانی جو ہمارا نیشنل ٹی وی دکھا رہا ہوتا ہے اس سے ایک جانب تو بیرون ملک ہمارے ملک کے ایک برے تاثر کی ترجمانی ہوتی ہے دوسری جانب ملک کے اندر بھی پڑھے لکھے طبقے کے لوگ اس قسم کا ماحول دیکھ کر اپنی خدمات ملکی سیاست کو دینے سے اجتناب برتتے ہیں جس کے نتیجے میں مفاد پرستوں کا تسلط ملکی سیاست سے ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے جو ملک کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے