سندھ یونی ورسٹی میں فوڈ فیسٹول کے نام پر ہندو مذہب اور عقائد کا کس طرح مذاق بنایا گیا کہ ہندو برادری سراپا احتجاج

اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات شدید ترین تناؤ کا شکار ہے حکومتوں کے درمیان جاری اس تناؤ کا براہ راست اثر یہاں کی عوام پر بھی پڑ رہا ہے اور پڑوسی ملک بھارت میں جیل میں ایک مسلمان قیدی کی ہلاکت اسی بات کا ردعمل ہے مگر اب تک اس حوالے سے پاکستان میں مسلمانوں کی جانب سے ہندو شہریوں کے خلاف ایسے کسی بھی اقدام کی خبر نہیں آئي تھی جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے

مگر گزشتہ دن سندھ کے ایک ہندو شہری جینت کمار کی جانب سے ایک پوسٹ سوشل میڈيا کا حصہ بنی جس نے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیۓ اس پوسٹ کے مطابق جینت کمار کا یہ کہنا تھا کہ سندھ یونی ورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ میں ایک فوڈ فیسٹول کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندو مزہب کی تضحیک کی گئي

جینت کمار کے مطابق اس قیسٹول میں دو طالب علموں نے ہندو بھگوان شیوا اور کرشنا کا بہروپ دھارا اور اس روپ میں وہ ایسی مضحکہ خیز حرکات کرتے رہے جس کو دیکھ کر تمام طالب علم ہندو مزہب کا مزاق اڈاتے رہے ہندو بھگوانوں کے اس روپ میں ان طالب علموں نے نہ صرف رقص کیا بلکہ وہ ہندو اشلوک کا بھی مزاق اڑاتے رہے اور اس فیسٹول میں شرکت کرنے والے طالب علم ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے رہے

اس کے ساتھ ساتھ دس روپے کے عوض کوئی بھی طالب علم پوجا کے اس منظر کا حصہ بن سکتا تھا جینت کمار کے مطابق یہ منظر یونی ورسٹی کے ہندو طالب علموں کے لیۓ انتہائي تکلیف دہ تھا مگر اقلیت میں ہونے کے سبب وہ اس عمل کو خاموشی سے برداشت کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکتے تھے

جینت کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا ہی اگر کوئی عمل کسی ہندو نے کیا ہوتا تو اس کو واجب القتل قرار دیا جاتا اس حوالے سے انہوں نے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے درخواست کی کہ وہ تحقیقات کروائيں کہ اس عمل کی اجازت کس نے دی اور ان طالب علموں کے خلاف بھی سخت سے سخت کاروائي کی جاۓ

جینت کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت جب پاکستان اور ہندوستان ک تعلقات نازک ترین موڑ پر ہیں اس قسم کا کوئي بھی عمل دونوں ممالک کے لوگوں میں مذید بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے