بچپن سے یہ سنتے آرہے تھے کہ بیٹی بوجھ نہیں ہوتی اب حالات بہت بدل گۓ ہین اب بیٹیاں ماں باپ کے لیے بوجھ نہیں بلکہ ان کا سہارا ہوتی ہین اور جہیز ایک لعنت ہے بیٹی والے بیٹی دیتے ہیں جو سب سے قیمتی ہوتی ہے اور لڑکے والے بھی اس بات کا شدو مد سے اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی نہیں چاہیۓ جو جہیز بھی دیں گے اپنی بیٹی کو ہی دیں گے ہمیں تو کچھ نہیں چاہیۓ
مگر آج ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈيو نظر سے گزری جو کہ موجودہ زمانے کی ویڈیو ہے اس ویڈيو میں حاجی ابراہیم تالے والے کی پوتی اور حاجی شکیل کی بیٹی کی شادی کا منظر دکھایا جا رہا ہے جس کے جہیز کی تفصیلات کچھ یوں ہیں
جہیز
لڑکی کو جہیو کی مد میں ایک ڈبل اسٹوری فرنشڈ مکان دیا جا رہا ہے جس کی چابی بھی سونے کی ہے اور اس مکان کی مالیت 62 لاکھ روپے ہے اس کے علاوہ بیس تولے سونا ،ایک ہیرے کی لونگ ، بیس تولے چاندی کے بسکٹ، دس چاندی کےسیٹ ، چاندی کی پازیب ، پچیس کپڑوں کے جوڑے آٹھ مصنوعی جیولری کے سیٹ دیۓ جا رہے ہیں
اس کے بعد صرف جہیز پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ لڑکے والوں کے سامنے بھی تحائف کے انبار لگا دیۓ گۓ
لڑکے والوں کے لیۓ تحائف
لڑکے کو سلامی کے نام پر سولہ لاکھ نقد رقم دی گئی اس کے ساتھ ساتھ سونے کی زنجیر ،ایک راڈو گھڑی جس کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار ہے لڑکے کے باپ کے لیۓ 71 ہزار روپے اور ایک موٹر سائکل ، لڑکے کی ماں کے لیۓ 31 ہزار روپے اور ایک سونے کا سیٹ لڑکے کے چھ بھائيوں کے لیۓ ایک ایک موٹر سائیکل ، اور بھائيوں کی چھ بیویوں کے لیۓ ایک ایک سونے کا سیٹ بھی دیا گیا
ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی بہت قیمتی بیٹی بھی ساتھ میں دی گئي
اس ویڈيو کو دیکھنے کے بعد صرف ایک ہی خیال ذہن میں آرہا ہے کہ اس رقم سے دسیوں بے سہارا لڑکیوں کی شادی کی جا سکتی تھی ان لڑکیوں کی رخصتی کا اہتمام کیا جا سکتا تھا جو کہ اپنے گھروں میں صرف اور صرف جہیز نہ ہونے کے سبب بیٹھی ہین
معاشرے کا یہ رویہ ان والدین کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے جو کہ اپنی بیٹی کے جہیز میں ایسے لوازمات کا اہتمام نہیں کر سکتے