لاہور میں لڑکی نے لڑکی سے شادی کرلی، پاکستان کی تاریخ کا انوکھا ترین واقعہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیۓ زندگی کے ہر ہر گوشے کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور ہمارا ملک چونکہ اسی لیۓ حاصل کیا گیا کہ اس میں مسلمان اسلامی قوانین کے تحت زندگی گزار سکیں اس لیۓ اس حوالے سے کوئی بھی قانون ایسا نہیں بنایا جا سکتا جو کہ اسلامی قوانین سے متصادم ہو

اسلامی نقطہ نظر سے مرد کا مرد سے نکاح اور عورت کا عورت سے نکاح نہ صرف جائز نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے سخت ترین پابندی ہے اور یہ عمل بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے

مگر حال ہی میں اس حوالے سے پاکستان کے بڑے شہر لاہور میں ایک عجیب و غریب واقع سامنے آيا ہے جس کے تحت ایک لڑکی نے نہ صرف دوسری لڑکی سے نکاح کر لیا ہے بلکہ اس نکاح کے بعد ان دونوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جا رہا ہے بلکہ اس کی شکایت کرنے والے ماں باپ کو بھی قانون کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا

تفصیلات کے مطابق شزا نامی لڑکی کے والدین کا یہ کہنا ہے کہ ان کے گھر کے برابر میں صوفیہ نامی لڑکی نے گھر کراۓ پر لیا اور اس کے بعد اس نے اہل محلہ کو بتایا کہ وہ بچوں اور بچیوں کو دنی تعلیم دیتی ہے اس لیۓ لوگ اپنے بچے اس کے گھر بھیجیں جس پر شزا کے گھر والوں ن اپنی بچی کو وہاں بھجوانا شروع کر دیا

مگر جلد ہی ان کو اندازہ ہو گیا کہ صوفیہ کے انداز مناسب نہیں ہیں اور اس کا پہناوہ اور رہن سہن کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے جس کے سببانہوں نے اپنی بیٹی شزا پر صوفیہ سے میل ملاپ کے لیۓ پابندی لگا دی جس کے بدلے میں صوفیہ ان کے گھر جا پہنچی اور ان سے شزا سے ملنے کا مطالبہ کیا

منع کرنے پر صوفیہ نے شزا کے ماں باپ کو نہ صرف گولی مار دینے کی دھمکی دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ موقع پاتے ہی شزا کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی دوسری جانب شزا کے گھر والوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بھی صوفیہ کے زیر اثر ہے اور ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں انہوں نے چوبیس دسمبر کو اپنی بیٹی کی گمشدگی کی درخواست بھی تھانے میں جمع کروائی

جس کے دو دن بعد تھانے والوں نے شزا کے والدین کے خلاف ہی اپنی بیٹی کو اغوا کرنے کا مقدمہ درج کر کے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا اس موقع پر شزا کے والدین نے چیف جسٹس اور وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے پر فوری ایکشن لے کر ان کی بیٹی کو برآمد کروائیں

جب کہ اس بارے میں پولیس ایس ایچ او اور دیگر عہدیداروں نے اپنے سرکاری نمبر بند کر رکھے ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا اسلامی قانون کے مطابق ایک لڑکی کا لڑکی سے شادی کرنا قطعی قابل قبول نہیں ہے مگر اس معاملے میں قانون کا کردار ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے