نظم “لفظوں کی پیروی”

الفاظ کیون تکلیف دیتے ہیں؟

ان لفظوں پہ ہم کیوں غور کرتے ہیں؟

ان لفظوں نے رشتوں میں دڑاڑیں پیدا کی ہیں..

ہم ان لفظوں کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟

جس مقصد سے اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں..

کیوں اس پر غور نہیں کرتے؟

چند باتوں سے ھم دل کو کیوں دکھ دیتے ہیں؟

ہم ان لفظوں کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟

کچھ کہہ دینے سے اگر دل ہلکا ہوتا ہے

تو اس سے کیوں خوف محسوس کرتے ہیں؟

گر ان لفظوں سے ہم ذرا کھیل سکتے ہیں

پھر کیوں ہم ان کی پیروی کرتے ہیں؟

ہاں جزبات کو اظہار کرنے کا ہے یہ اک طریقہ

کیوں اور بھی مختلف انداز بیان کو ہم نے نہیں ہے سیکھا؟

افسوس! کہ ہے نہیں انسان کا اس زبان پہ زور

اسی لئے ہم اس کی ہی پیروی کرتے ہیں..

خوف خدا ہونا چاہیے، جسکو بھلادیا ہے

انہی لفظوں کے باعث ہم اس کے سامنے لاے جائیں گے..

کتنے ہی نافرمانی, غیبت اور بدتمیزی سے دل دکھاے ہیں

آخر کیوں ہم اس کی پیروی سے خود کو آزاد نہیں کرتے…

آزادی کا حق تو وہ رکھتے ہیں

جو واقعے آزاد ہوں

مگر جس ملک کے لوگ اپنے خواہشوں میں قید ہیں

اس ملک کے لوگوں سے ہم آزادی کی امید بھی کیوں رکھتے ہیں…

دیکھا جائے تو ان لفظوں کا ہے بہت اثر

کرتے ہیں یہ ہمارا کیا خوب حشر

بس گر ہم چاہیں تو کریں خود کو آباد یا برباد

بربادی کا انتخاب کر کے حاصل ہوتی ہے دکھوں کی داد

ہوگے ہیں ہم دکھوں کہ ادی

کہ اب ہوریے ھیں سب کے سال ہاوی

کہ جاگ اٹھی ہے سوچ

اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم لفظوں کی چور بلکہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر عمل کرے.