ایک سوتیلے بھائی کی داستان جس نے اپنی ہی عزت کو پامال کر دیا

جب میں پیدا ہوا تو میری خاندان والوں نے بہت خوشیاں منائیں میں چھ بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا وہ بیٹا تھا جس کے لیۓ میری دادی اور میرے والد نے دوسری شادی تک کر ڈالی تھی اور  ہر جگہ سے منتیں اٹھائي تھیں اور میری پیدائش کے ساتھ ہی ایک جانب تو میرے ادھیڑ عمر باپ کے چہرے کی رونق بڑھ گئی تھی تو دوسری جانب ان کے کاندھے فخر سے بلند ہو گۓ تھے کہ بلا آخر وہ بھی ایک بیٹے کے باپ بن گۓ

میری ماں کا رتبہ گھر میں بڑھ گیا جب کہ میری سوتیلی ماں اور اس کی بیٹیوں کی حیثیت گھر کی ملازموں سےبھی بدتر ہو گئي

میرے والد ایک کاروباری انسان تھے گھر میں روپے پیسے کی بہت فراوانی نہ تھی تو کسی چیز کی تنگی بھی نہ تھی اور بیٹا ہونے کے سبب میرے لیۓ تو ان کے پاس ہر چیز ان کی طاقت سے زیادہ ہی موجود ہوتی تھی

میں نے بچپن ہی سے اپنی سوتیلی  بہنوں کو اپنے اوپر ڈانٹ سنتے ہوۓ ہی دیکھا تھا میرے کھانے پینے میرے کپڑے استری کرنے اور میری دیگر ضرورتوں کے لیۓ بہنوں کی حق تلفی کرنا میرا وطیرہ تھا اس سب کے باعث مجھے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ میری بہنیں بھی انسان ہیں ان کے اندر بھی دل دھڑکتا ہے

اپنی ان من مانیوں کے ساتھ میں نے جب جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو میری شاہ خرچیاں بہت بڑھنے لگیں جس پر کبھی کبھار میرے ابو دبی آواز میں اعتراض کرتے بھی تو میری دادی ان کو چپ کروا دیا کرتی تھیں

اپنی بری صحبت کے سبب میں وقت سے پہلے ہی عورتوں کی قربت سے آشنا ہو گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ شراب اور دیگر نشے بھی چکھ لیۓ تھے جنہوں نے میری بے راہ روی میں مذید اضافہ کر ڈالا تھا

اس دن جب میں دن چڑھے سو کر اٹھا تو مجھے گھر میں سناٹے کا احساس ہوا رات کو کچھ زيادہ ہی پی لی تھی جس کے سبب میرا سر گھوم رہا تھا میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو میری بہن چھاڑو لگا رہی تھی وہ مجھ سے چھوٹی تھی میرے سابقہ برے رویۓ کے سبب مجھے دیکھتے ہی وہ خوفزدہ ہو گئی

میں نے اس سے گھر والوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ عزیزوں میں میت ہونے کے سبب سب گھر والے وہاں گۓ ہوۓ ہیں اور وہ اکیلی ہے میں نے اس کو چاۓ بنانے کا کہہ کر اپنے کمرے میں آگیا

جب وہ چاۓ لے کر میرے کمرے میں آئی تو نہ جانے شیطان کہاں سے مجھ پر حاوی ہو گیا کہ میں نے کمرے کے دروازے کو بند کر دیا اور اس کو زبردستی پلنگ پر پکڑ کر گھسیٹ لیا اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا جب مجھے ہوش آیا تو میری بہن اپنے پھٹے ہوۓ کپڑے اٹھاتے ہوۓ رو رہی تھی میں نے اس سے کہہ دیا کہ اس بارے میں کسی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے

اس کے بعد میں اس حادثے کو فراموش کر بیٹھا اور میرے ضمیر نے بھی مجھے اس بات پر ملامت تک نہ کیا کہ یہ میں نے کیا قیامت کر ڈالی ہے مگر ایک دن جب میں گھر میں تھا تو مجھے گھر کی بوجھل فضا کا کچھ اندازہ ہوا جہت دن بعد میں اپنی دادی کے پاس گیا تو انہوں نے بھی مجھ سے زیادہ لاڈ دلار نہ کیا جب میں نے ان کے موڈ کی خرابی کی وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے جو انکشاف کیا اس نے میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکال ڈالی

ان کا کہنا تھا کہ میری یہ بہن پتہ نہیں کس کے ساتھ منہ کالا کر آئی ہے اب امید سے ہے ہم بار بار اس سے پوچھ رہے ہیں کہ اس بچے کے باپ کا نام کیا ہے تو وہ روۓ جا رہی ہے اور کچھ بتا نہیں رہی اب کل صبح اس کی ماں کو بولا ہے کہ ڈاکٹر کے پاس لے کر جاۓ اور اس بچے کو ضائع کروا دے

اس کے بعد دادی نہ جانے کیا کیا کہتی رہیں مگر میں کچھ بھی سننے کے قابل نہ رہا نہ تو میں کسی کو بتا سکتا تھا کہ اس بچے کے باپ کا نام کیا ہے اور نہ ہی اپنی بہن کی صفاغی پیش کرتا تھا میں اپنے ضمیر کی صلیب پر لٹک رہا تھا رات کے آخری پہر میں ایک فیصلے پر پہنچ گیا اور میں نے خواب آور گولیاں کھا کر زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا

اگلا دن میرے گھر والوں کے لیۓ قیامت کا دن تھا کیوں کہ اس دن اس گھر سے ایک نہیں بلکہ دو دو جنازے اٹھے میری اس بہن نے بھی دنیا کے سوالوں سے بچنے کے لیۓ زہرکھا لیا

اس کہانی میں قصور وار کون تھا اس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے بعض اوقات ہمارے بزرگ اپنے رویوں سے بچوں کی ایسی تربیت کر ڈالتے ہیں جس کا خمیاذہ صرف ان کو نہیں بلکہ ان سے جڑے تمام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے