اپنے ہی بہنوئی کے ہاتھوں جنسی ہراسگی ، بلیک میلنگ اور تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی بہادر لڑکی نے ایسا کیا کر ڈالا کہ تمام لڑکیوں کے لیے ایک مثال بن گئی

ہمارے معاشرے میں کسی بھی لڑکی کو اس وقت انتہائی دشوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے ہی کسی قریبی عزیز کی جانب سے کی جانے والی جنسی ہراسگی اور تیزاب گردی  کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کرتی ہے اس آواز کو سب سے پہلے اس کے گھر والے ہی دبا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے پیش نظر ان کی بیٹی سے زیادہ اہمیت اس رشتے ناتے کی ہوتی ہے جس کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے

لاہور سے تعلق رکھنے والی ثمن علی کو اپنے بچپن سے ہی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب وہ صرف آٹھ سال کی تھی اس وقت اس کی بڑی بہن کی شادی ہو گئی آٹھ سال کی کم عمر بچی اپنے بہنوئی کو اپنے سگے بھائیوں کی طرح ہی سمجھتی تھی مگر ظفر درحقیقت انسان کے بھیس میں چھپا وہ بھیڑیا تھا جس کی نیت ثمن کے لیۓ پہلے دن ہی سے ٹھیک نہ تھی

اسی وجہ سے کئی بار اس نے ثمن کو جنسی طور پر تنہائی میں ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی اور زبانی طور پر بھی اس کے ساتھ فحش کلامی کرتا رہتا تھا ابتدائی عمر میں تو ثمن اس کے ارادے سمجھنے سے قاصر تھی مگر جیسے جیسے اس کی عمر میں اضافہ ہوتا گیا اس کو اس بات کا ادراک ہوتا گیا کہ ظفر کے ارادے اس کے لیۓ ٹھیک نہیں ہیں اس لیۓ اس نے ان سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا

اسی سبب اس نے انٹر کے امتحانات بھی پرائیویٹ دیۓ تاکہ اس کو گھر سے نکلنا نہ پڑے اور اس کا سامنا ظفر سے نہ ہو اس نے اپنی ماں اور بہن سے بھی جب ظفر کی حرکتوں کا ذکر کیا تو انہوں نےثمن کو خاموش رہنے کا کہا تاکہ اس کی بہن کی ازدواجی زندگی پر کوئی اثر نہ پڑے

انٹر کے امتحانات میں کامیابی کے بعد جب اس نے یونی ورسٹی میں داخلے کا فیصلہ کیا اور مذید تعلیم کے لیۓ یونی ورسٹی جانا شروع کیا تو ظفر کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا اور اس نے اس کا ہر وقت تعاقب شرو ع کر دیا یہاں تک کہ اس نے تنخواہ پر ایک آدمی کو ملازم بھی رکھ لیا جو کہ ہر وقت ثمن پر نظر رکھتا تھا

اپنی سالی سے شادی کرنے کے لیۓ ظفر ہر حد تک جانے کو تیار تھا مگر ثمن اس کو ایسا کوئی موقع نہیں دے رہی تھی جس کے سبب وہ اشتعال کا شکار ہو گیا اور اس نے ثمن کی تصویروں کی فوٹو شاپ کے ذریعے کردار کشی شروع کر دی جس کے سبب ثمن کے گھر والے بھی اس سے بد زن ہو گۓ

ایک دن اس نے بس اسٹاپ سے زبر دستی ثمن کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اس کو لے کر ایک سنسنان قبرستان میں لے گیا جہاں پر اس نے ثمن کو ایک بار پھر اپنے ساتھ شادی پر مجبور کرنے کی کوشش کی یاد رہے ظفر اس وقت چالیس سال کا جب کہ ثمن صرف اٹھارہ سال کی تھی

ثمن کے انکار پر وہ اس حد تک غضب ناک ہوا کہ اس نے گاڑی میں موجود ایک بیگ میں سے ایک بوتل نکالی اور اس میں موجود تیزاب کو ثمن کے چہرے پر چھڑک کر رومال سے پھیلا دیا اور کہا کہ جب تم میری نہیں ہو سکتیں تو میں تمھیں کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا تکلیف کی شدت سے چہرے کے جھلس جانے کے سبب ثمن نے چیخنا شروع کر دیا جس پر ظفر اس کو قریبی مدرسے لے کر گیا اور وہاں سے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے

نیم بے ہوشی کے عالم میں ظفر ثمن کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ تمھاری بہن کو سمجھا دیا ہے امید ہے کہ وہ سمجھ جاۓ گی اس موقعے پر اس کی بہن نے اس کے جلے ہوۓ چہرے پر ٹوتھ پیسٹ لگادیا اور اس کو اس بات پر بابند کیا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتاۓ گی

بڑھتی ہوئی تکلیف کے باعث ثمن کو ایک پرائیویٹ کلینک لے جایا گیا جنہوں نےاس کو ایمرجنسی میں بڑے ہسپتال ریفر کیا جہاں وہ تین دن تک زیر علاج رہی اس کے بعد اس کو دوبارہ اس کی بہن کے گھر ہی بھیج دیا گیا جہاں اس کی حیثیت ایک قیدی کی سی تھی اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی شکایت کہیں بھی درج نہ کرا سکتی تھی

سونے پر سہاگہ اس موقعے پر اس کی بہن نے سب کو یہ بتا دیا کہ ثمن اپنے بہنوئی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی اور جب انہوں نے منع کیا تو اس نے اپنے چہرے پر تیزاب پھینک دیا بہن کے اس بیان پر اس کی امی نے بھی ماضی میں کی جانے والی ثمن کی کردار کشی کے باعث یقین کر لیا

اس موقعے پر ثمن کی بہن نے اس کو کراچی لے جانے کی تجویز پیش کی جس کو اس کے بھائیوں نے ٹھکرا کر اپنے گھر لے جا کر ثمن کو ایک کمرے میں قید کر ڈالا اس موقعے پر ثمن نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ہونے والے سارے ظلم کی داستان سنائی جس پر اس کے بھائی نے نہ صرف یقین کیا بلکہ اپنے بہنوئی ظفر کے خلاف تھانے میں کیس بھی داخل کر ڈالا

اس موقعے پر ظفر کے خلاف جنسی ہراسگی ، اور تیزاب گردی کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم کے مقدمات بھی قائم کیۓ گۓ جن کی پیروی ثمن نے خود کی جس کے سبب اس کے علاج کے عمل میں کافی تاخیر ہو ئی مگر اس کے باوجود اس نے مقدمے کی ہر پیشی میں خود شرکت کی اور آخر کار جس دن اس کے چہرے کا آپریشن تھا اس دن واقعے کے ایک سال بعد اس کو انصاف مل گیا

عدالت نے ظفر کو 28 سال کی سزا اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اب تمام تر مشکلات کے باوجود ثمن نے اپنی تعلیم کا سلسلہ رکنے نہیں دیا اور اس نے یونی ورسٹی س گریجویشن کر لیا ہے اور اپنا تعلیم جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہے ثمن کی کہانی ان تمام لڑکیوں کے لیۓ ایک مثال ہے جو کہ مشکلات کے سبب اپنی تعلیم سے منہ موڑ لیتی ہیں