بیٹیوں کو ماں کی کوکھ میں تحفظ مل گیا، تحریک انصاف کی حکومت کا جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کی روک تھام کا بڑا فیصلہ

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال قریب پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ عورتیں اور لڑکیاں اسقاط حمل کرانے پر مجبور ہو جاتی تھیں اور ان میں سے پانچ کروڑ کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا تھا، جن میں سے پاکستان بھی ایک اہم نام ہے

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں، جہاں آبادی میں اضافہ انتہائی تیز رفتار ہے، ہر سال قریب بائیس لاکھ حاملہ خواتین اور لڑکیاں اسقاط حمل کراتی ہیںراولپنڈی کے علاقے راجہ بازار  کی رہائشی غزالہ پروین نامی ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی آٹھ سال پہلے ہوئی تھی، جس کی اب تین بیٹیاں ہیں۔ بیٹی کا سسرال ایک قدامت پسند مسلم گھرانہ تھا، جہاں مانع حمل ذرائع کے استعمال کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا یا کم از کم انہیں ترجیح نہیں دی جاتی تھی۔ ایسے میں اس خاتون کی بیٹی بار بار حاملہ ہو جاتی

مگر ہر بار اس خوف سے چھپ کر اسقاط حمل کرا لیتی کہ کہیں چوتھی بیٹی پیدا نہ ہو جائے۔ اسے دھمکی دی گئی تھی کہ اگر ایک اور بیٹی پیدا کی، تو اسے طلاق دے دی جائے گی۔ اس نے کئی بار اپنے حمل ضائع کرائے۔ پھر ایک بار ایسے ہی ایک عمل کے دوران بہت زیادہ خون بہہ جانے سے اس کی جان ہی چلی گئی

 

ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث ولادت سے قبل ہی بچے کی جنس کے بارے میں الٹراساونڈ کے ذریعے بچے کی جنس کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے جس کے سبب پاکستان کے بہت سارے گھرانے بچی کو عام طور پر اس دنیا میں آنے سے قبل ہی ماں کی کوکھ ہی میں مار ڈالتے ہیں

اسقاط حمل کی اس بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام کے لیۓ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے پنجاب اسمبلی میں بچے کی جنس کے بارے میں پیدائش سے قبل پتہ لگانے کو جرم قرار دینے کا ایک بل پیش کیا ہے جو کہ امید ہے کہ بھاری اکثریت سے منظور ہو جاۓ گا اس کے بعد پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہونے لگے گا جہاں جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل پر پابندی عائد ہونے کے ساتھ ساتھ جن کے بارے میں جاننے پر بھی پابندی ہے

پنجاب حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارے ’یو این ویمن‘ کے اشتراک سے ’صنفی تشدد کے خاتمے‘ کے موضوع پر سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ بعض لوگ دوران حمل ہی بچے کی جنس معلوم کراتے ہیں اور بیٹا نہ ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کرا لیتے ہیں۔ یاد رکھیں حضور اکرمؐ نے 1400 سال قبل بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی روایت کا خاتمہ کردیا ہے۔