قیامت سے قبل قیامت : پندرہ سالہ بیٹی نے باپ کو گولی مار کر قتل کر ڈالا ۔وجہ ایسی کہ سب ہی توبہ کرنے پر مجبور ہو جائیں

بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کو بیان کرتے ہوۓ سب سے پہلے مردوں کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن نہ کرو اور اس کی عملی تفسیر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی فاطمہ سے محبت تھی ۔ اسی محبت کے سبب ہمارے پیارے نبی کی آل کا سلسلہ بھی اسی بیٹی سے جاری فرمایا گیا

یہی بیٹی اگر نیک سیرت ہو تو باپ کے لیۓ فخر ہوتی ہے اور بیٹی کی اپنے باپ سے محبت بھی ایک فطری عمل ہے باپ بیٹی کی یہی محبت ہوتی ہے جس کے سبب باپ تپتی چلچلاتی دھوپ میں بھی اپنے گھر والوں کے لیۓ محنت کرتا ہے تاکہ ان کو ایک اچھی اور قابل عزت زندگی دے سکے

اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں ماں باپ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کریں اور ان کو اچھے برے کے تمیز سکھائيں اور ان کو ایسے کسی بھی عمل سے روکیں جو ان کو آئندہ زندگی میں مسائل سے دوچار کر دے

مگر بدقسمتی سے جوانی کے جوش میں اولاد کو ماں باپ کی یہ روک ٹوک قید اور پابندی جیسی لگتی ہے اور وہ یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی رشتے سے زیادہ محبت ان کے والدین ہی ان سے کرتے ہیں

ایسا ہی ایک واقعہ فیصل آباد کے پوش علاقے بٹالہ کالونی میں پیش آیا جہاں پر پندرہ سالہ ایک لڑکی نے میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی تقلید کرتے ہوۓ اپنے باپ کی نافرمانی کی تمام حدیں پار کر دیں اور اس کو گولی مار کر ہلاک کر ڈالا

تفصیلات کے مطابق بٹالہ کالونی کی پندرہ سالہ لڑکی جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا کے والد کو اس کے محلے کے ایک لڑکے کے ساتھ دوستی پر شدید اعتراضات تھے جس کا وہ بارہا اظہار کر چکے تھے جس پر اس لڑکی نے اپنے والد کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس نے اپنے اس دوست لڑکے کو بھی اس منصوبے میں شریک کر لیا

اس کے بعد اس نے گھر میں موجود پستول کا استعمال کرتے ہوۓ اس لڑکے کی مدد سے اپنے والد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تفتیش کرنے والے اداروں نے جب اس لڑکی سے باز پرس کی تو عادی مجرم نہ ہونے کے سبب وہ لڑکی سب کچھ سچ بتا بیٹھی

اس نے اپنے اعتراف جرم میں اس بات کو تسلیم کیا کہ اس کے والد نے جب اس کو اس لڑکے سے ملن سے منع کیا تو اس کے بدلے میں اس نے اپنے والد کو ہلاک کر دیا

لڑکی اور اس کا دوست پولیس حراست میں ہیں اور پولیس نے ان کے خلاف پرچہ درج کر لیا ہے تاہم اس لڑکی کی کم عمری کے سبب اس کے خلاف جونائیل ایکٹ کے تحت ہی کاروائی عمل میں لائي جاۓ گی