زمانہ جاہلیت کا یہ رواج تھا کہ بیٹیوں کی پیدائش کو اپنے لیۓ منحوسیت کی علامت سمجھا جاتا تھا اس وجہ سے ان معصوم بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا مگر اسلام کے بعد جہاں عورتوں کو پیروں سے اٹھا کر عزت کے درجے پر بٹھا کر شوہر کو اس بات کا پابند کر دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے تمام حقوق دے وہیں اس بات کا بھی حکم دیا گیا کہ بیٹیوں کو زندہ دفن نہ کیا جاۓ
مگر بدقسمتی سے اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے اندر جاہلیت کی خوبو اب بھی موجود ہے ایسے ہی ایک شوہر شہزاد بھی تھا جو کہ لاہور کا رہنے والا ہے تین سال قبل اس کی شادی نمرہ کے ساتھ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ان کا دو سال کا ایک کمسن بیٹا بھی ہے اور اس کے بعد نمرہ ایک بار پھر ماں بننے والی تھی
تفصیلات کے مطابق آٹھ ماہ کی حاملہ نمرہ کی لاش اس کے گھر سے اس حالت میں ملی کہ وہ چھت سے پھندہ لگا کر لٹک رہی تھی ابتدائی تفتیش میں اس کے شوہر کا یہ کہنا تھا کہ نمرہ نے چھت سے پھندہ لگا کر خودکشی کر لی ہے مگر جب نمرہ کے گھر والوں نے حقائق بتاۓ تو پولیس نے اس کے شوہر کو بھی شامل تفتیش کر لیا
جس کے بعد یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ مقتولہ نمرہ کی موت خودکشی نہ تھی بلکہ اس کے شوہر شہزاد نے الٹراساونڈ کے بعد جب یہ پتہ چلا کہ مقتولہ کے پیٹ میں پیدا ہونے والی بچی ہے تو اس کے شوہر نے اس سے اس بچی کو ضائع کروانے کا تقاضا کیا جس سے انکار پر اس کے شوہر نے بیوی اور بچی دونوں کو ہلاک کر ڈالا
دوہرے قتل کی اس واردات نے جاہلیت کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے جب کہ معصوم بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا میاں فیصل شہزاد کے حوالے سے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھا اور قتل کے وقت شراب کے نشے میں دھت تھا پولیس نے متوفیہ نمرہ کے شوہر فیصل شہزاد کو گرفتار کر کے فیصل ٹاؤن لاہور کے تھانے میں اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے