Article

فیصل آباد: جشن ولادت حضرت علی پر عورتوں کے رقص و سرور کا ایسا اانتظام جس نے اس دن کے تقدس پر سوال اٹھا دئیے

2674 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

مسلمانوں کے لیۓ اللہ تعالی نے خوشیوں کے کچھ ایسے دن مختص کیۓ ہیں جن کو منانا نہ صرف ان کے لیۓ خوشی کا سبب ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان دنوں کو منانے پر ثواب اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں بھی حاصل ہوتی ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ ایام ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو مسلمان ان شخصیات کی پیدائش اور وصال  کے ایام کے طور پر پورے مزہبی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جن سے وہ محبت رکھتے ہیں جیسے کہ عید میلاد النبی اور حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام کا یوم ولادت و شہادت وغیرہ

ان تمام ایام کو منانے کا مقصد ان شخصیات کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کو ظاہر کرنا ہوتا ہے مگر اس کے لیۓ یہ لازمی امر ہے کہ ان ایام کو منانے کے ساتھ ساتھ ان شخصیات کی زںدگیوں کو اور ان کی تعلیمات کو یاد رکھا جاۓ ورنہ یہ محبت انسانی کردار کی تعمیر مین کوئي اہم کردار ادا نہیں کر سکتی ہے

گزشتہ دنوں ملک بھر میں تیرہ رجب کو حضرت علی کی یوم پیدائش کے حوالے سے تقریبات کا ملک بھر میں اہتمام کیا گیا اور اس حوالے سے سیمینار ، مجالس وغیرہ منعقد کی گئیں جن میں حضرت علی کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی

مگر حضرت علی کی پیدائش کے حوالے سے فیصل اباد میں بھی کچھ تقریبات کا انعقاد کیا جس نے اس دن کی اہمیت اور اس کی عقیدت پر سوال اٹھا دیۓ جیسا کہ ان پوسٹرز اور ہورڈنگ پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دن یوم ولادت علی کا جشن منانے کے لیۓ انتظامیہ نے ایک ایسی محفل کا اہتمام کیا ہے جو کہ حضرت علی جیسی شخصیت اور ان کی تعلیمات سے کسی صورت مناسبت نہیں رکھتی ہے

اس دن کی مناسبت سے جس تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں  حنا گوری، انمول اور سویرا  جیسی معروف رقاصائيں دھمال کے نام پر رقص پیش کریں گی  جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تیرہ رجب گزر چکی ہے مگر اس محفل کا انعقاد اکتیس مارچ کو کیا جاۓ گا  مگر اس محفل کے اس طرح انعقاد نے بہت سارے سوالات اٹھا دیۓ ہیں کہ کیا ہم لوگ دنیاوی معاملات میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ ہم نے ان مزہبی شخصیات کے ناموں کو بھی اب اپنے مقاصد کے لیۓ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے

حکومتی ادارے اس قسم کی تقریبات کی اجازت کس طرح دے دیتے ہیں یہ ایک اہم سوالیہ نشان ہے اور اس ضرورت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اس سلسلے کو روک کر اس انتظامیہ سے باز پرس ہونی چاہیۓ ورنہ لوگ اسی طرح دین کے نام کو دنیا کے عارضی فائدوں کے لیۓ استعمال کرتے رہیں گے

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: