Article

لاہور یونی ورسٹی کی طالبہ اقرا حمید کو اس کی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے فیل کرنے کی دھمکیاں دے کر اس کی جان لے ڈالی

1793 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

یونی ورسٹی وہ مادر  علمی ہوتی ہے جس میں جانے والے بچے عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے برے بھلے کی تمیز کر سکتے ہیں عمر کے اس دور میں جب کہ آج کے زمانے میں بچے ماضی سے زیادہ شعور اور معابلے کا سامنے کر رہے ہیں ان کو کسی بھی حوالے سے ڈرانا دھمکانا نہ صرف ان بچوں کے لیۓ نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ اس کا خمیازہ ان کے والدین کو بھی ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے

مگر بدقسمتی سے پروفیسر حضرات آج بھی اس مادر علمی اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو گزشتہ صدی کے طور طریعقوں کے مطابق ہی پڑھا رہے ہیں جس طریقے کو مغرب میں یکسر مسترد کر دیا گیا ہے ہمارے یونی ورسٹیز آج بھی نہ صرف نصاب کے معاملے میں بہت پیچھے ہے بلکہ رویوں کے معاملے میں بھی بہت پیچھے رہ چکے ہیں

یہی وجہ ہے کہ آج کل کےدور میں سوشل میڈیا کی وساطت سے بارہا ایسے کیسز سامنے آچکے ہین جہاں پر طالبات کو ان کے پروفیسرز کی جانب سے دباؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ دباؤ کبھی تو غیر اخلاقی تعلق قائم کرنے کے لیۓ ڈالا جاتا ہے اور کبھی یہ دباؤ ریزلٹ خراب کرنے کا ڈالا جاتا ہے جس کے سبب کئی طالبات نے خودکشی بھی کر ڈالی

حال ہی میں لاہور یونی ورسٹی کی گجرات کیمپس کی طالبہ اقرا حمید کا  کیس سوشل میڈيا پر وائرل ہو رہا ہے جو کہمیڈیکل کی آخری سال کی طالبہ تھی اور جس کی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کا مطالبہ تھا کہ وہ سرونگ ہیومینٹی نام کی جس تنظیم سے وابستہ ہے اس میں کام کرنا چھوڑ دے اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے اس کو دھمکی دی کہ وہ اس کو فیل کر دیں گی

اقرا حمید جو کہ ماضی میں ایک اچھے ریزلٹ کی حامل طالبہ تھیں اس دباؤ کو برداشت نہ کر سکیں اور اس نے اس کا اظہار اپنے میسجز میں اپنی دوست سے بھی کیا کہ وہ ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کی دھمکیوں کو لے کر بہت پریشان ہے

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں میڈيکل کی تعلیم حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیۓ ایک جانب تو بے تحاشا محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری جانب کثیر مقدار میں سرمایہ بھی درکار ہوتا ہے ایسے حالات میں آخری سال میں ہیڈ آف ڈپارٹمینٹ کی جانب سے ایسی دھمکیاں کسی بھی طالب علم کی زندگی کو برباد کرنے کے مصداق ہو سکتا ہے

اور ایسا ہی کچھ اقرا حمید کے ساتھ بھی ہوا جو اپنی ہیڈ آف ڈپارٹمینٹ کے اس دباؤ کو برداشت نہ کر سکی اور شدیید نوعیت کے برین ہیمبرج کا شکار ہو گئي جو اس کے لیۓ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ زندگی کی بازي ہی ہار گئي

اقرا حمید کی موت اس حوالے سے کوئي طبعی موت نہیں ہو سکتی اس کو اس کی ہیڈ آف ڈپارٹمینٹ نے اس درجے پر پہنچا دیا جہاں پر موت کے علاوہ اس کے لیۓ کوئی اور راہ فرار نہ رہی مگر اقرا حمید کی موت یا قتل ہم سب کے لیۓ ایک سوالیہ نشان ہے کہ والدیں اتنی محنتوں کے بعد اپنے بچے کے مستقبل کے بہتر کرنے کے لیۓ اس کو یونی ورسٹی بھیجتے ہیں یا پھر موت کا شکار ہونے کے لیۓ ؟

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: