Article

بیٹے کی جان بچانے کے لیۓ بیٹی کی قربانی بڑی بات تو نہیں ‘

834 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میں نے اپنی زندگی میں بہت سار جرگے اور ان کے فیصلے کیۓ تھے مگر مجھے خبر نہ تھی کہ کبھی میں بھی اس طرح جرگے کے سامنے پیش ہوں گا اونچۓ شملے والے بڑے زور اور طاقت والے لوگوں کے سامنے بے بسی اور کمزوری کے ساتھ بیٹھے ہوۓ مجھے آج محسوس ہو رہا تھا کہ جب میں اپنا شملہ اونچا کر کے لوگوں کے خلاف فیصلے دیا کرتا تھا تو وہ کیا محسوس کرتے ہوں گے

میرے بیٹے نے کسی لڑکی کے معاملے میں دوسرے بندے کو طیش میں  آکر قتل کر ڈالامجھے خوشی تھی کہ میرا بیٹا بہادر تھا اور اس نے میرا شملہ نیچے کرنے کے بجاۓ بہادری کا ثبوت دیا تھا مرد کی مردانگی اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کے اندر بہتا خون دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہو جاۓ

اب اس کے لواحقین اس معاملے کو جرگے میں لے کر آگۓ تھے حالانکہ میں نے ان سے کہا تھا کہ جو بھی دیت وہ لینا چاہیں لے لیں اور میرے بیٹے کی جان چھوڑ دیں کیوں کہ میرا بیٹا اکلوتا تھا تین بہنو کا ایک ہی بھائی بہت منتوں مرادوں کے بعد مجھے ملا تھا

اسی وجہ سے کسی حد تک غصے کا تیز اور خودسر بھی تھا مگر جوانی میں یہ سب کچھ ایک مرد کا سنگھار ہوتا ہے اور اس بات پر کبھی میں نے بھی اس کو نہیں روکا تھا آخر کار وہ میری پوری جائیداد کا وارث تھا

مگر مرنے والے کا باپ بھی کافی اثر وسوخ والا تھا اور اس نے ایف ائی آر کٹوا کر میرے بیٹے کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا میں اس طرح اپنے بیٹے کو مرتے نہیں دیکھ سکتا تھا اس لیۓ میں نے علاقہ معززین کی مدد سے درخواست کر ڈالی کہ عدالت کے بجاۓ فیصلہ جرگے میں کر لیا جاۓ اور مین اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیۓ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیۓ تیار تھا

جرگے میں اس دفعہ میری جگہ فیصلہ کرنے والوں کے بجاۓ فیصلہ کروانے والوں میں تھی میں نے ان لوگوں کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ اگر چاہیں تو میں ان کے نام اپنی زمین یا پیسہ رکھنے کو تیار ہوں اس کے بدلے میں انہیں میرے بیٹے کے خلاف کیا گیا کیس واپس لینا ہو گا اور عدالت میں حلف نامہ جمع کروانا پڑے گا تاکہ میرا بیٹا آزاد ہو سکے

مگر معاملہ اس وقت بگڑ گیا جب انہوں نے اپنے جوان بیٹے کی لاش کی قیمت  کی بنیاد پر کیس واپس لینے سے انکار کر دیا میں نے ان کے سامنے اپنا شملہ اتار کر ان کے پیروں میں رکھ دیا مگر اس کو بھی انہوں نے ٹھکرا دیا ان کا کہنا تھا کہ ان کے جوان بیٹے کی موت کی جو اذیت ان کو ہوئی ہے یہ سب چیزیں اس کا بدل نہیں ہو سکتیں

آخر کار جرگے کے ایک فریق نے تجویز پیش کی کہ اس خاندانی دشمینی کو ختم کرنے کے طریقہ یہ ہے کہ آپس میں رشتے طے کر لیۓ جائیں یعنی میں اپنی بیٹی کا رشتہ اس خاندان کو دے دوں اور اخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ مین اپنی تین بیٹیاں جن کی عمریں بلترتیب 13، 14 اور 16 سال تھی ان کی شادی معتول کے دو بھائیوں اور ایک باپ کے ساتھ کروادی جاۓ جو کہ ستر سال چالیس سال اور پینتیس سال کے تھے

اس وقت مجھے صرف یہی سمجھ آرہا تھا کہ کسی بھی طرح اپنے بیٹے کو بچا لوں اور اخر کار جس دن میرا بیٹا گھر واپس آیا اس دن میری تینوں بیٹیوں کی ڈولیاں بھی اٹھیں

لوگ کہتے ہیں کہ مین نے اپنی عزت کی قیمت پر اپنے بیٹے کی جان بچائی ہے کیا واقعی ایسا ہے ؟

Snap Chat Tap to follow