Article

جسم فروشی اسلام میں گناہ اور اس اسلامی ملک میں جائز کیسے ہے ؟

1314 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔اس مذہب کے مطابق ،عورت اور مرد کے درمیان جسمانی تعلقات قائم کرنے کے لیۓ بھی ایک مقررہ طریقہ کار موجود ہے۔ اس کےمطابق مرد اور عورت کے درمیان جسمانی تعلق سے قبل نکاح کی شرط رکھی گئی ہے ۔ اور اس نکاح کا بھی مکمل طریقہ کار شریعت میں بتایا گیا ہے ۔

نکاح کے بغیر جسمانی تعلقات رکھنا اسلام میں شرعی طور پر قطعی ممنوع ہے ۔ اور ایسا کرنے والے کے لۓ سنگسار کرنے کی سزا رکھی گئی ہے ۔ اسلام کے اندر جسم فروشی کی گنجائش قطعی طور پر موجود نہیں ہے ۔

مگر ایک اسلامی ملک ایسا بھی ہے جہاں نہ صرف عورتوں کی جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے لۓ نہ صرف ایک جگہ مقرر کی گئی ہے بلکہ انہیں قانونی تحفظ بھی حاصل ہے ۔بنگلہ دیش کے ضلع تنگیل میں “کنداپرا ” نامی قحبہ خانہ موجود ہے جو بنگلہ دیش کا قدیم ترین قحبہ خانہ ہے۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ قحبہ خانہ دو ہزار سال پرانا ہے ۔اس کو بنگلہ دیشی حکومت کے حکم پر 2014 میں مسمار کر دیا گیا تھا ۔ مگر حال ہی میں مقامی این جی اوز کی مدد سے دوبارہ قائم کر دیا گیا ہے ۔

جسم فروشی کے اس اڈے کو مسمار کيۓ جانے کے بعد یہاں رہنے والی اور پیشہ کرنے والی خواتین سے احتجاج کیا ۔جس میں ان کا نظریہ یہ تھا کہ جسم فروشی بھی ایک کام ہے اور وہ اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں جانتی ہیں اس سبب ان کو اس کام کی اجازت دی جاۓ ۔ اور پھر آخر کار بنگلہ دیش کی نیشنل ویمن لائرز ایسوسی ایشن ہائي کورٹ کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئی کہ اس قحبہ خانے کو دوبارہ تعمیر کا حکم دیا جاۓ ۔

لہذا حکومت نے نہ صرف یہ قحبہ خانہ دوبارہ تعمیر کر دیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کے گرد ایک چار دیواری بھی بنا دی ۔ تاکہ خواتین یہاں آزادی سے اپنا دھندہ چلا سکیں ۔ اس قحبہ خانے میں بارہ سے چودہ سالہ لڑکی کو جسم فروشی کے قابل سمجھا جاتا ہے ۔

یہ لڑکیاں انسانی اسمگلنگ کے ذریعے جسم فروشی کے اس اڈے میں لائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد یہ ایک میڈم کے حوالے کر دی جاتی ہیں جو اسمگلروں کو رقم ادا کر کے ان کو خریدتی ہے ۔ اس کے بعد جب تک یہ لڑکیاں دھندہ کر کے اپنے پیسے ادا نہیں کر دیتیں تب تک ان کی حیثیت میڈم کی باندیوں والی ہوتی ہے ۔

اس لڑکی کو نہ تو باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے پاس پیسے رکھنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ مگر اپنی رقم پوری کرنے کے بعد یہ لڑکیاں باہر جا سکتی ہیں ۔ مگر چونکہ معاشرہ ایسی عورتوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اس وجہ سے یہ خواتین جسم فروشی کو ہی اپنا پیشہ بنا لیتی ہیں ۔

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: