Article

‘وہ مجھے بھی اپنے جسمانی اعضاء کو چھونے اور سہلانے پر مجبور کرتا’ ایک لڑکے کی نفسیاتی مریض بننے کی داستان

1317 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میں کسی بھی طرح اپنے فعل کو درست نہیں کہہ سکتا۔میری کہانی ایک نفسیاتی مریض کی کہانی ہے ۔ میں نے ہر لحاظ سے ایک غلط کام کیا لیکن یہ ردعمل تھا۔ اسے آپ میرا انتقام سمجھ لیں ۔ کم از کم جب میں نے اسکا آغاز کیا تھا تب تو یہ انتقام ہی تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر قریب آٹھ یا دس برس ہوگی۔قریب ہی میری خالہ کا گھر تھا جنکے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔

خالہ زاد بھائی عمر میں مجھ سے تین ، چار سال بڑے تھے مگرانکا رویہ دوستانہ تھا۔میں اکلوتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہی خالہ زاد ہمارے گھر کے اکثر کام نمٹاتے تھے۔ جیسے سودا سلف لانا اور دوسرے ایسے ہی کام ۔اسی حوالے سے ان میں سے دو بھائیوں کے ساتھ مجھے اکثر بازار جانے اوراٹھنے بیٹھنے کا موقع ملتا۔ اس دوران ان کے دوستانہ رویئے نے مجھے ان سے خاصا بے تکلف کر دیا تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھاکہ یہ بے تکلفی میرے جنسی استحصال کی وجہ بن جائے گی۔

ایک دن کسی کام سے خالہ کے گھر گیا تومیرا کزن کاشف اکیلا تھا اورخالہ سمیت دوسرے افراد میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔میں نے واپسی کا ارادہ کیا تو کاشف نے مجھے روک لیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ اسی دوران اس نے کہاکہ وہ مجھے کچھ دکھانا چاہتا ہے اور اپنی الماری کے اندر کپڑوں کے نیچے چھپا ئے گئے تاش کے پتے نکال لایااور میرے سامنے ڈھیر کر دیئے ۔ ان پر جنسی فعل کرتے ہوئے مرد اور عورت کی رنگین تصاویر موجود تھیں۔

میں پہلی بار برہنہ مرد اور عورت کو دیکھ رہا تھا اور اس فعل کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اب اپنے کزن کے نیچے دبا ہوا تھا۔ میرا جو حال ہوا ہو گا وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس روز کاشف کی مجھ سے گہری دوستی ہوئی اور پھر وہ اکثر موقع ملتے ہی مجھے لپٹا لیتا اور چومنے سے لیکر کپڑے اتار کر نازک اعضاء کو چھونے اور غلیظ حرکتوں کرتا۔ وہ مجھے بھی اپنے جسمانی اعضاء کو چھونے اور سہلانے پر مجبور کرتا۔

شروع میں تو میں بھی اسکا مزہ لیتا رہا مگر پھر اسکی جانب سے بہت زیادہ تنگ رہنے لگا تھا۔ ایک دن دوسرے خالہ زاد جسکا نام عامر تھا اس نے چھپ کر ہمیں یہ فعل کرتے دیکھ لیا اور بعد میں مجھے پکڑ کریہ سب بتا دیا اورکہاکہ اسکے ساتھ بھی یہی کچھ کرنا ہوگا ورنہ وہ سب کو بتا دے گا۔ اور پھر وہ بھی میرا جنسی استحصال کرنے لگا۔

میں نے کاشف کو یہ بات بتا دی جس پر اس نے کہاکہ تو کیا ہوا تم مزے کرو بس۔وہ جتنا کچھ سیکس کے بارے میں جانتے تھے مجھے بھی مزے لیکر بتا دیتے تھے۔ اسطرح میں دونوں کی جنسی تسکین کا باعث بنا ہوا تھا لیکن ان سے پریشان ہوگیا تھا۔ مگر سیکس کا چسکا ضرور لگ گیا تھا۔ یہ فطری بات تھی اور میں اب لڑکیوں میں دلچسپی لینے لگا تھا۔

انکی بہن اور میری کزن نادیہ مجھ سے ایک سال چھوٹی تھی۔ میں اکثر انکے گھر میں ہوتا تھا اور اس موقع پرنادیہ سے بھی بات چیت ہوتی۔ اس کے ساتھ ہنسی مزاق توہوتا تھا مگر جب کاشف یا عامر ہوتے تو نجانے کیوں میں خود اپنی کزن سے بات کرنے سے کتراتا۔ انہی دنوں میں نے اسے سیکس کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔میری کوشش ہوتی کہ دونوں بھائی نہ ہوں تب اسکے ساتھ کچھ وقت گزار سکوں۔ وہ ہمارے گھر بھی روز یا ایک دو دن بعد آتی تھی اوراس دوران مجھے موقع مل گیا۔

میں نہ صرف اس کے بھائیوں کی روز روز کی حرکتوں سے تنگ آچکا تھا بلکہ اب انکے خلاف دل میں نفرت پیدا ہوچکی تھی۔ میں نے نادیہ سے دوستی بڑھانے کے ساتھ یہ محسوس کیا کہ وہ بھی مجھ میں کافی حد تک دلچسپی رکھتی ہے۔ شاید یہ اس لئے تھاکہ میں اسکا کزن تھا اور میرے علاوہ وہ کسی سے آسانی سے ہنسی مذاق یا بات چیت نہیں کرسکتی تھی۔

ایک دن وہ میرے گھر آئی تو میں نے اپنے منصوبے پر عمل کر دیا۔ میں اسکے بھائی سے تاش کے وہی پتے بہانہ کر کے لے آیا تھا جنکو دکھا کر اس نے میرے اندر آگ بھڑکائی اور اپنا مفاد پورا کیا تھا۔ نادیہ کو میں نے کچھ دنوں کے دوران باتوں باتوں میں محبت اورانڈین فلموں میں دکھائے جانے والے جسمانی پیار کے حوالے سے اشارے دیئے تھے۔ اسوقت دونوں ہی کم عمر تھے اور اپنے ذہن کے مطابق باتیں کرتے تھے

میں اسے اپنے گھر کی چھت پر لے گیا جہاں کسی کے آنے کا خوف نہ تھا۔ یہاں میں نے نادیہ سے انڈین فلم کے سیکسی سین پر بات چھیڑی اور اسکے بعد کام آسان ہوگیا۔ میں نے تاش کے پتے اسکے سامنے رکھ دیئے۔ وہ دیوانی ہو گئی۔ اور اس دن پہلی مرتبہ خود میں نے کسی کے ساتھ سیکس کیا۔ یہ سیکس کیا تھا بس چھیڑ چھاڑ تھی جو جوانی کی حدوں کو چھونے کے بعد اور اسکی منگنی تک جاری رہی۔

اس دوران میں لڑکی کے جسمانی اعضاء اور اسکے ساتھ لطف سے واقف ہو چکا تھا۔ اتفاق ہے کہ ہم کبھی پکڑے نہیں گئے۔مگرمیں نے نادیہ کو اسکے بھائیوں کی اپنے ساتھ حرکتوں کا اسی وقت بتا دیا تھا جب ہمارے بیچ نیا نیا جنسی تعلق بنا تھا۔ ایسی کہانیوں سے نادیہ اور میرے اندر مزید حرارت پیدا ہو جاتی اور ہم جم کر سیکس کرتے۔

وہ بھی پہلی بار کسی مرد کے جسم سے واقف ہوئی تھی اور لطف لیتی تھی۔ مگر بعد میں اس نے مجھے یہ سب کرنے سے روک دیا تھا۔ البتہ میرے ساتھ سیکس کے متعلق باتیں کرنا اور رومانس کرنا اسکو بہت پسند تھا۔ادھر کاشف اور عامر کا یہ تھاکہ میں جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا خود اپنا دفاع کرنے لگا تھا اور انکو انکار بھی کردیتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ خود مجھ سے دور ہو گئے۔

مگر انکے اس فعل نے مجھے نہ صرف متنفر کردیا بلکہ میں انتقامی سیکس پر اتر آیا اور اسکا نشانہ انہی کی بہن بنی۔ اسطرح میں کہہ سکتا ہوں کہ مرد بھی مرد کا استحصال کرتے ہیں اور معاشرے کے اندر مزید خرابی پیدا کرتے ہیں۔یا یہ کہہ لیں کہ ایک مرد کی وجہ سے ایک لڑکی کا وقار اور عزت عرصے تک خاک میں ملتی رہی۔ یہی نہیں بلکہ خود میں بھی سیکس کی لت میں مبتلا ہو کر نفسیاتی مریض بن  گیا اور بہت سے مسائل کا سامنا کیا۔

یہ کہانی ہمارے ایک مرحوم پڑوسی کی ڈائری سے لی گئی ہے۔ وہ کراچی میں سائیکاٹرسٹ اور جنسی امور کے ماہر نفسیاتی مریض  کے ڈاکٹر تھے۔ انکے انتقال کے بعد انکی کتابیں انکی بیٹی نے مجھے دے دی تھیں کیونکہ مجھے مطالعے کا شوق تھا اور انکل کی لائبریری سے انکی زندگی میں بھی کتابیں لے کر پڑھتی رہی ہوں۔ ان کے پاس اردو ادب، سماجیات، مذہب اور دیگر موضوعات پر کئی کتابیں تھیں۔ جن میں سے کچھ اب بھی میرے پاس ہیں۔ جن میں ایک ڈائری بھی میرے ہاتھ لگی اور یہ ڈائری غالبا ان کے کیسز کے نوٹس تھے اور ان مریضوں کی کہانیاں ہیں جو انکے پاس کسی ذہنی علاج کے لئے آتے رہے ہوں گے۔  اس میں درج ایک کہانی بھیج رہی ہوں۔

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: