Article

افسانہ : محبت رب کی صورت ہے

1597 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

 بارش بہت تیز ہے اور اگر اس کے تھمنے کے انتظار میں رہا تو نماز کا وقت نکل جائے گا ایسا کرو مجھے جائے نماز لا دو میں گهر میں ہی نماز پڑھ لیتا ہوں صارم نے کپڑے پریس کرتی ہوئی فریحہ سے کہا۔یہ لو اور میرے لئیے دعا کرنا مت بھولنا فریحہ نے مسکرا کر کہاجس کی ہر بات میرے حق میں دعا بن جاتی ہے حیرت ہے وہی لڑکی اپنے لئیے دعا کا کہہ رہی ہے

 آپکی ساری باتیں درست جناب مگر اس “اپنے لئے” پر غور فرمائیں تو شاید آپ کو احساس ہو جائے کہ اصل میں دعا کس کے حق میں ہے تمہارا کوئی جواب نہیں لڑکی ” صارم نے ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ فریحہ کی آنکھوں میں اتر کر دیکھا اور وہ اسکی آنکھوں میں چھپی محبت کا بار اٹھائے شرما کے باہر نکل گئی ۔صارم نے مغرب کی نماز پڑھ کر خالہ سے اجازت چاہی۔

” بیٹا خیر سے جاؤ اور اپنے یونٹ پہنچ کر فون ضرور کر لینا مجھے فکر رہے گی کلثوم بیگم نے صارم کو تاکید کی ۔” جی خالہ ضرور انشاء اللّه”۔صارم نے گھر سے نکلتے ہوئے فریحہ کی اداس آنکھوں کو مسکرا کر جلد لوٹ آنے کی تسلی دی ۔

صارم کے والدین کا بچپن میں ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا اور اسکی خالہ(کلثوم بیگم ) نے ہی صارم کی کفالت کی ۔کلثوم بیگم کو رب نے فریحہ کی صورت میں رحمت سے نوازا تھا اور جنید ضیاء (فریحہ کے والد ) فریحہ کی پیدائش کے 3 سال بعد دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے ۔یوں کلثوم بیگم نےاپنی کچھ زمین بیچ کر صارم اور فریحہ کی کفالت کی اور دونوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کیا ۔

صارم کو فوج میں جانے کا شوق تھا اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے فوج میں کمیشنڈ آفیسر کے طور پر جوائن کر لیا ۔فریحہ اور صارم کی بہت سی عادات ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ محبت کو دونوں کے دلوں میں گهر کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی ۔

کلثوم بیگم کی دلی خواہش دونوں کی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کی صورت میں پوری ہوئی اور اگلے مہینے صارم کی واپسی پر فریحہ اور صارم کی شادی طے پائی ۔فریحہ کے موبائل کی سکرین پر صارم کا نام آیا تو اس نے جلدی سے صارم کی کال ریسیو کی ۔السلام و علیکم ۔جی تو کپٹن صارم بخیر و عافیت اپنی منزل و مقصود پر پہنچ گئے ہیں  فریحہ نے صارم کے بولنے سے پہلے ہی اپنے انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔وعلیکم السلام ۔

مجھے اگر اندازہ ہوتا کہ کوئی میرے جانے کے بعد یوں بے صبری سے میری آواز سننے کو بیتاب رہے گا تو یقین جانو کسی کے صبر کو یوں دور جا کر بالکل بھی نا آزماتا  صارم نے فریحہ کے فورا کال ریسیو کرنے پر اسے جتایا ۔” دور کہاں ہیں آپ کپٹن صاحب ۔

جائے نماز میں سمایا آپکا لمس مجھے آپ کے اور رب کے بہت قریب رکھتا ہے ۔اس دن اچانک سے تیز ہو جانے والی بارش حقیقت میں ہی میرے لئیے ابر رحمت ثابت ہوئی تھی ۔وقت نکل جانے اور نماز قضاء ہونے کے ڈر سے آپ  نے جس جائے نماز پر فرض ادا کئے تھے اس جائے نماز سے جڑا آپکا مقدس لمس مجھے آپکی یاد اور اپنے رب کے فرائض کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتاہی برتنے نہیں دیتا ۔کوئی تکلیف یا آپ سے دوری کا احساس جب میرے وجود سے جڑنے لگتا ہے میرا اس جائے نماز اور رب سے تعلق مضبوط سے مضبوط  تر ہوتا جاتا ہے۔

سخت سے سخت حالات میں وقت پر اپنی گرفت مضبوط  کر کے اپنے  رب کو منانا میں نے آپ سے ہی سیکھا ہے”فریحہ کا ایک ایک لفظ صارم کے دل پر وحی کی صورت نقش ہوتا گیا اور اسے اس لمحے وجود بہت پاک اور خاص محسوس ہو رہا تھا ۔” آپکی یونیفارم میں اپنی ایک پائل رکھی ہے جس محبت سے رکھی ہے اسی محبت سے رکھیے گا آپ کو میرے پاؤں میں اچھی لگتی ہے نا تو اپنے قدموں کو جلدی سے گھر کی جانب راغب کیجیۓ گا تاکہ آپکی پسند کا احترام کیا جا سکے “

فریحہ کی مسکراہٹ اس لمحے وہ خوب محسوس کر رہا تھا ۔” تمہارا حکم سر آنکھوں پہ لڑکی ۔تمہاری یہ پائل اب مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں روک سکتی بہت جلد اسکی زینت بڑھاؤں گا انشاء اللّه ۔ہر دن محبت دونوں کو اپنے رنگ میں خوب رنگ رہی تھی اور وہ اس کے سحر میں زندگی کے ہر ورق کو محبت کا پاسدار کر رہے تھے۔

انتظار کی مدّت جوں جوں کم ہوتی جا رہی تھی ملن کی آس ایک دوسرے کو بےصبرا  کئیے جا رہی تھی ۔فریحہ کے موبائل کی سکرین پر اچانک سے ایک نیا نمبر کال کی صورت میں جگمگایا۔” السلام و علیکم ۔آپ کپٹن صارم کے گھر سے بات کر رہی ہیں ؟ جی میں ان کی کزن بات کر رہی ہوں آپ کون ؟”

” میں میجر عرفان بات کر رہا ہوں ۔کپٹن صارم کے قافلے پر حملہ ہوا ہے اور انکی گاڑی بے قابو ہو کر گہری کھائی میں گر گئی ہے ۔مجھے افسوس ہے کہ کپٹن صارم اب ہم میں نہیں رہے ۔ان کے ساتھ ہمارے 5 جوان اور بھی شہید ہوئے ہیں۔سب کے جسد خاکی ہسپتال پہنچا دئیے گئے ہیں آپ ہسپتال آ جائیں تاکہ صارم کی شناخت ہو سکے ۔

ہمارے لئیے ڈیڈ باڈیز کو شناخت کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ تمام جسد خاکی بہت بری حالت میں ہیں فریحہ کی محبت کا مان ایک لمحے میں جیسے منوں مٹی تلے دب گیا سکتے کی حالت میں اسکا سارا وجود جیسے  پتھر کا ہو گیا بس ایک دل تھا کچھ سانسیں تھیں جو اس کے لئیے بوجھ بنتی جا رہی تھیں ۔

ہسپتال پہنچ کر میتوں سے کفن اٹھا کر جب وہ شناخت کے مرحلے سے گزر رہی تھی تو اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سفید کپڑوں میں چھپی حقیقتوں کو جھٹلا سکے خاص کر اس حقیقت کو جس کی شناخت کے لئیے اسے بلایا گیا تھا ۔کفن میں چھپی حقیقتوں میں سے اب تک کسی کا بھی وجود پوری حالت میں نہیں تھا کسی کا کٹا ہوا بازو پڑا ہوا تھا تو کسی کا آدھا دھڑ ۔کسی کا سر تو کسی کی نیم کٹی انگلیاں ۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسکی محبت کو رب یوں ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اس سے اس کے صبر کا امتحان لے گا ۔تقدیر اس کی قسمت کے ساتھ زندگی اور موت کا کھیل کھیل رہی تھی۔پانچ جسموں کی شناخت میں اسے صارم کے وجود سے جڑی کوئی نشانی نہیں ملی اور اب آخری وجود سے جیسے جیسے کفن اٹھتا گیا اس کا سارا وجود جیسے کسی دلدل میں دھنستا جا رہا تھا ۔آخری کفن میں خون آلود یونیفارم کی آدھی شرٹ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔

ڈاکٹر صاحب ان میں میرے کپٹن صارم نہیں ہیں ۔میں جانتی ہوں وہ مجھے یوں بیچ رستے میں چھوڑ کے نہیں جا سکتے یہ شرٹ انکی ہو ہی نہیں سکتی میں ان کے وجود سے جڑی ہر چیز کا لمس بغیر چھوئے محسوس کر سکتی ہوں مگر دیکھیں میں نے تو اس شرٹ کو چھو بھی لیا ہے دیکھیں نا یہ میرے صارم ۔۔۔اچانک سے جب شرٹ کی جیب میں پڑی چیز پر فریحہ کا  ہاتھ پھرا تو اس کے دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا تھا ۔

آپکی یونیفارم میں اپنی ایک پائل رکھی ہے جس محبت سے رکھی ہے اسی محبت سے رکھیے گا خون آلود پائل نے اس کے سارے وہم دور کر دئیے تھے جس حقیقت سے وہ بھاگنا چاہتی تھی وہ اس کے آگے کھڑی اسکی بربادی کا ماتم منا رہی تھی ۔فریحہ کبھی صارم کی قبر پر نہیں گئی اس نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر حقیقت تسلیم نا کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی ۔کلثوم بیگم نے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا اور اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا ۔

وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا مگر فریحہ کے لئیے جیسے ایک جگہ پر رک سا گیا ہو وہ اب بھی محبت کو جینا چاہتی تھی محبت میں جینا چاہتی تھی اور وہ اپنے طور پر اسے جی بھی رہی تھی فرق بس اتنا تھا کہ جسے وہ محبت سمجھ رہی تھی شاید وہ اسکا پاگل پن تھا۔اس نے ایک لمحے کو بھی اس حقیقت میں نہیں جیا کہ وہ صارم کے بغیر جی رہی ہے ۔صارم اب بھی اسکی ہر بات میں ہر دعا میں اور خاص کر اس کے دل میں جی رہا تھا ۔

فریحہ بیٹا کب تک ایسے خود سے اور حقیقت سے چھپتی پھرو گی خدا کے لئیے اس خیال سے نکل آؤ کہ وہ ایک دن آئے گا دروازے پر دستک دے گا اور ۔۔۔”ٹک ٹک ٹک ۔

دروازے پر دستک ہوئی فریحہ پاگلوں کی طرح بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف لپکی دروازہ کھولا سامنے محبت کھڑی تھی ۔حقیقت پھر سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی اس کے ہاتھوں نے جیسے ہی اس وجود کو چھوا ہر طرف پھر سے اسکے لمس کی خوشبو پھیل گئی ۔

***************************

صارم نے ادھ کھلی آنکھوں سے مسلسلبجتے موبائل کی سکرین پر دیکھا تو کپٹن ارشد کی کال تھی ۔ گڈ مارننگ صارم صاحب ۔اٹھ جائیے اور ذرا ٹائم دیکھئے ٹھیک 10 بجے ہم نے مشن پر روانہ ہونا ہے مجھے ہیڈ کوارٹر ذرا جلدی آنا تھا تو میں آج آپکی یونیفارم پہن کر آیا ہوں میری یونیفارم واشر مین ابھی کچھ دیر میں آپکو دے جائے گا آپ وہ پہن لیجیے گا اور فریش ہو جائیں میں آپکو 30 منٹ میں پک کرتا ہوں “

صارم جلدی سے تیار ہوا اور کپٹن ارشد کے آنے پر وہ دونوں چار جوانوں کے ہمراہ اپنے مشن پر روانہ ہوئے جہاں راستے میں گھات لگائے دہشت گروں نے ان پر حملہ کیا اور انکی گاڑی بے قابو ہو کر گہری کھائی میں جا گری ۔

کھائی میں اک بہتی ندی کے قریب زخموں سے چور صارم کو جب وہاں موجود اک چرواہے نے دیکھا تو وہ اسے اپنے گھر لے آیا ۔محبت اپنی منزل خود طے کیے جا رہی تھی زندگی موت کو چکما دے کر پھر سے دو دلوں میں دھڑکن بن کر دھڑکنے لگی تھی ۔غریب چرواہے نے صارم کی  صحتیابی کے لئیے دن رات ایک کیا اور یوں خدا نے صارم کو اک نئی زندگی سے نوازا ۔

************************

خدا محبت کا ہی ایک روپ ہے اس روپ کو اپنانے میں اگر رب کو مناؤ گے تو رب کبھی بھی آپکو مایوس نہیں کرے گا

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: