Article

کیا ڈرامہ رانجھا رانجھا کر دی میں بھولے کا نوری سے جنسی خواہشات کا تقاضا کرنا اس کی ہوشمندی کی طرف پلٹنے کی دلیل ہے ؟

1887 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

آج کل پاکستانی شائقین ڈرامہ رانجھا رانجھا کر دی نامی ڈرامے کے فسوں میں مبتلا ہے جس میں بھولے کا کردار اور اس کو نبھانے والے عمران اشرف کی اداکاری کو ملکی و بیرون ملکی شائقین نہ صرف پسند کر رہے ہیں بلکہ اس کے انداز کو اپنا کر سوشل میڈیا پر کئی ایسی کلپس اور میمز بھی بنائی جا رہی ہیں جو اردو زبان میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں

مگر اس سب کے باوجود یہ ڈرامہ کئی حوالوں سے ہماری روائتوں میں دڑاڑیں ڈالنے کا سبب بن رہا ہے اس میں شامل کئی ایسے واقعات ہیں جو کہ ہماری زندگی کی عام روش و رواج سے متصادم ہیں ڈرامے کی حد تک تو قابل قبول ہیں مگر عام زںدگی میں ہم سب کے لیۓ قطعی نا قابل قبول ہو سکتے ہیں

کچرا چننے والی لڑکی کے خواب

ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہم سب مساوات کا ڈھنڈورا تو پیٹ سکتے ہیں مگر عملی زندگی میں کبھی بھی کسی کچرہ چننے والے کو اپنے گھر کی دعوت میں بلا کر اپنے برابر بٹھا کر کھانا نہیں کھلا سکتےہیں ایسے ماحول میں اگر کوئی برابری کے خواب دیکھتا بھی ہے تو اس کی تعبیر ملنا ممکن نہیں ہوتا

لڑکی کا ماضی جانے بغیر اس کو اپنانا

اس سے قطع نظر کہ ہمارے گھر میں ایک ذہنی معذور انسان ہے جس کی شادی کے خواب ہم دیکھ رہے ہیں مگر اس کے باوجود کبھی بھی کسی کا بھی ماضي جانے بغیر اس کے ماں باپ کے بارے میں آگاہی حاصل کیۓ بغیراپنے گھر  کی بہو نہیں بنائی جاتی ہے

ذہنی معذور لڑکے کو بلا حیل و حجت اپنانا

اپنے جیون ساتھی کے حوالے سے ہر لڑکی کے کچھ نہ کچھ خواب ہوتے ہیں جن سے سمجھوتا کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اس طرح کسی لڑکے کے بارے میں کچھ بھی جانے بغیر اپنانا انسانی ذہن و فکر سے ماورا لگتا ہے

لڑکی کے والدین کا اپنی بیٹی کو فراموش کر بیٹھنا

انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مرنے پر تو صبر کر سکتا ہے مگر زندہ اولاد کے گم ہوجانے پر خاموش نہیں بیٹھتا اور اس کی تلاش میں خاک چھانتا پھرتا ہے مگر اس ڈرامہ رانجھا رانجھا کر دی  میں اپنی بیٹی کو اماں جنتے کے حوالے کرنے کے بعد نوری کے والدین اس کو بالکل ہی فراموش کر بیٹھے

جنسی بھوک کے بیدار ہونے کو ذہنی ہوش مندی سے تعبیر کرنا

اس ڈرامے کی اکیسویں قسط میں اپنے دوستو کے بہکانے پر نوری سے جنسی تقاضوں کا اظہار اور زبردستی اس سے جنسی تعلق قائم کرنا شائقین کے لیۓ ایک جھٹکا تھا ۔ بھولے کے معصومانہ کردار سے اس طرح کا عمل سب کے لیۓ حیرت انگیز تھا ۔ اور اس کے بعد اس کی ماں کا ردعمل انتہائی حیرت انگیز تھا

انسانی جسم میں جس طرح بھوک پیاس کا لگنا ایک فطری عمل ہے اسی طرح جنسی تقاضے بھی انسانی فطرت کا حصہ ہیں جو وقت کے ساتھ بیدار ہو جاتے ہیں اور فطری طور پر نارمل اور ابنارمل تمام افراد میں وقت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں البتہ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہاب نارمل انسان کو اس کا ادراک نہیں ہو پاتا اور کم ذہنی کے سبب وہ ان تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں

ہمارے بزرگوں کی یہ ہمیشہ سے سوچ رہی ہے کہ اگر کسی ابنارمل انسان کے جنسی تقاضوں کی تکمیل ہو جاۓ تو یہ اس کی ذہنی نشونما پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور ایسی ہی سوچ کچھ بھولے کی ماں کی بھی ہے کہ اس کا بیٹا اگر ان تقاضوں کو سمجھنے لگا ہے تو وہ زندگی کے باقی معاملات کو بھی سمجھنے لگے گا

اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈرامہ رانجھا رانجھا کر دی کی آگے کی اقساط میں یہ کہانی کس کروٹ بیٹھتی ہے

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: