Article

میں نے اپنے سگے بھائی کو قتل کر دیا کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔

883 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میری ماں کی موت کسی اور کے لیۓ سانحہ ہو یا نہ ہو مگر میں جانتی تھی کہ میری زندگی کا یہ سب سے بڑا حادثہ تھا دس سال کی ایک بچی کو سب سے زیادہ اپنی ماں کے قرب کی خواہش ہوتی ہے جب وہ اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کر رہی ہوتی ہے اس وقت ایک ماں ہی اس کا سب سے بڑا سہارہ ہوتی ہے اور جب وہی سہارہ چھن جاۓ تو ہر طرف تاریکی کا احساس پھیل جاتا ہے

ایسے وقت میں کسی اور عورت کو ماں کی صورت میں قبول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے مگر میں یہ سب کسی کو بھی بتانے سے قاصر تھی میری ہر رات اپنا تکیہ بھگوتے گزرتی تھی اور دن کے اجالے میں ڈھیٹ کے خطاب کے ساتھ میں ہر وہ حرکت کرتی جس سے میرے ابو اور سوتیلی اماں چڑتے تھے

ان کو چڑا کر مجھے عجب سے روحانی خوشی نصیب ہوتی مجھے لگتا کہ اس طرح میں اپنی ماں کے مرنے کا بدلہ ان سے لے رہی ہوں حالانکہ میری امی کی موت طبعی تھی مگر میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئي تھی کہ ابو کو میری امی کے بعد دوسری شادی نہیں کرنی چاہیۓ تھی

میری امی جس بھائي کی پیدائش کے دوران مری تھیں وہ بھائي بھی مجھے زہر لگتا تھا میں بات بے بات اس کو دھنک کر رکھ دیتی تھی اس احساس کے ساتھ میں تیزی سے عمر کے زینے طے کرتے ہوۓ جوانی کی حدود میں داخل ہو گئي تھی میری سوتیلی ماں میرے اسکول جانے کے خلاف تھیں ان کو چڑانے کے لیۓ میں نہ صرف ہر روز اسکول جاتی بلکہ اپنی پڑھائی پر بھی بہت توجہ دے کر ہمیشہ کلاس میں پہلی پوزیشن لیتی

اسکول وہ واحد جگہ تھا جہاں پر میں سکون محسوس کرتی تھی جب میں نے کالج کے حدود میں قدم رکھا تو پڑھائی کے لیۓ میرا جنون مذید بڑھ گیا اب میں پڑھائي کے بہانے زیادہ سے زيادہ وقت کالج یا دوستو کے گھروں میں گزارنے لگی تھی جس سے میری سوتیلی ماں اور زیادہ چڑتی تھیں اسی لیۓ جیسے ہی گھر جاتی وہ مجھ پیٹنا شروع کر دیتیں

میں اپنا یہ غصہ چھوٹے بھائی کو مار کر نکالتی یہ تو شکر تھا کہ میری سوتیلی ماں کی کوئي اولاد نہ تھی ورنہ وہ بھی میرے ہاتھوں اسی طرح مار کھاتا وہ ایک عام سا دن تھا میں کالج کے لیۓ تیار ہو رہی تھی تو میری سوتیلی ماں نے مجھسے کہا کہ میں آج کالج نہ جاؤں کیوں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مگر میں نے سختی سے منع کر دیا کہ میرا ٹیسٹ ہے میرا جانا ضروری ہے مگر امی نے ابو سے کہلوا کر مجھے کالج جانے سے روک لیا جس کا غصہ میں نے کمرے میں بند ہو کر نکالا

بھائی اسکول گیا ہوا تھا باہر امی نے کئي بار مجھے کام کے لیۓ بلایا مگر میں نے ان کی کسی کام میں مدد نہیں کی اور کمرے میں ہی بند رہی دوپہر میں جب ان کی ہمت جواب دے گئی تو وہ بستر پر لیٹ گئیں اور اس وقت میرا چھوٹا بھائی میرے پاس آیا اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس کو کھانا دے دوں میں نے اس کو سختی سے منع کر دیا مگر اس نے رونا شروع کر دیا اس کو بہت بھوک لگ رہی تھی

اس کو روتے دیکھ کر مجھے اپنا رونا یاد آگیا مجھے لگا کہ یہی وہ انسان ہے جس کی وجہ سے میری ماں مجھ سے دور چلی گئی میں غصے میں اٹھی اور کچن میں جا کر چھری اٹھا لائي اور بے دردی سے اس پر چھریوں سے وار کرنے شروع کر دیۓ مجھ پر ایک جنون سوار تھا میں بے دردی سے اس پر چھریوں کے وار کرتی جا رہی تھی یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گیا جب مجھے ہوش آيا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی

اس کے بعد کیا ہوا اس کو بتانےکے بجاۓ صرف یہی کہوں گی کہ جیل کی کال کوٹھڑی میں قید میں اپنی زندگی کے باقی دن گزار رہی ہوں اب مجھے سمجھ آگیا ہے کہ میرے والد اور میری سوتیلی ماں غلط نہ تھے

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: