Article

سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم جاری کر دیا آسیہ بی بی پر لگنے والے الزامات کے حیران کن حقائق جانیں

1789 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہےآسیہ بی بی پر الزام ہے کہ اس نے گاؤں کے ایک فالسے کے باغ میں دو مسلمان خواتین کے ساتھ جھگڑے کے دوران پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تین توہین آمیز فقرے ادا کیۓ تھے

استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی مگر جرگے نے اس کو معاف نہیں کیا لزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں

جون 2009 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ‘تین توہین آمیز’ کلمات کہے تھےاس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے۔

مگر آسیہ بی بی نے عدالت مین اپنے اوپر لگاۓ گۓ الزامات کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان عورتوں نے مجھ پر اسلام قبول کرنے کے لیۓ دباؤ ڈالا اور جب میں نے انکار کیا تو انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگا دیا مگر 2010 میں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں

پھانسی کی سزا کے خلاف آسیہ بی بی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی مگر چارسال بعد اکتوبر 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی ان کی پھانسی کی سزا کی توثیق کر دی جس کے جواب میں جنوری 2015 میں آسیہ بی بی نے سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی جس کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت کے لیۓ منظور کرتے ہوۓ آسیہ بی بی کے سزاۓ موت کے فیصلے کے خلاف عمل درآمد روک دیا

جس کے بعد آٹھ اکتوبر2018 کو سپریم کورٹ کے بنچ نے تین گھنٹے تک اس مقدمے کو سنا اور اس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جس کے بعد 31 اکتوبر 2018 کو آسیہ بی کو قانونی ماہرین کے مطابق ان نکات کے باعث بری کر دیا گیا

ایف آئی آر درج کرنے میں دیر جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں

گواہان کے بیانات میں عدم مطابقت

آسیہ بی بی کے غیر عدالتی اعترافِ جرم پر انحصار

عدالتوں کی جانب سے آسیہ بی بی پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت اور ان کے ماحول کے تناظر کو نظر انداز کرنا

عدالتی فیصلے کے آتے ہی ملک کے مزہبی حلقوں کی جانب سے شدید ترین احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ملک بھر میں احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ دوسری جانب آسیہ بی بی کے حوالے سے میڈیا کو بھی شدید سنسر شپ کا سامنا ہے اور ان احتجاجی دھرنوں کی کسی بھی قسم کی لائیو کوریج پر پابندی ہے

یاد رہے اس سے قبل آسیہ بی بی کے گھر والے جان کے خوف کے باعث برطانیہ میں پہلے ہی پناہ حاصل کر چکے ہیں اور رومن کیتھولک چرچ کے مزہبی پیشوا اس سے قبل بھی حکومت پاکستان سے یہ درخواست کر چکے ہیں کہ آسیہ بی بی کی پھانسی کی سزا کو کالعدم قرار دیا جاۓ

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: