Article

تین بار شادی کرنے والی عورت کے ظلم کی ایسی داستان جس نے ایک مرد کو برباد کر ڈالا

1161 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میرا نام محمد مدثر حسین ہے آپ سب لوگوں سے اور حکومتی ایوانوں سے ایک سوال ہے کہ کیا یہ میرا پاکستان نہیں ہے؟ اگر ہے تو مجھے اور میرے گھر والوں کو یہاں اپنی زندگی گذارنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ اگر یہ حق مجھے اور میری فیملی کو حاصل ہے تو میرے ساتھ ایسا کیوں کر ہو رہا ہے؟اپنی زندگی کا ایک بہت ہی برا واقعہ شیئر کرنے جا رہا ہوں برائے مہربانی اسے دل سے پڑھیے گا اور انصاف کیجیئے گا کہ کیا میں غلط ہوں؟

میرا تعلق چکوال شہر کے ایک نہایت ہی غریب گھرانے سے ہے میری اور میرے بڑے بھائی مبشر کے نکاح سے پہلے ہماری فیملی بہیت پر سکون زندگی گزار رہی تھی مشکلات ضرور تھیں لیکن ہم مل کر ان کو برداشت کررہے تھے پھر 2011 میں میرا اور بھائی کا نکاح ہوا  کچھ دنوں بعد بھائی کی رخصتی ہوئی اور ہمارے گھر کے افراد میں ایک اور فرد کا اضافہ ہواجس کے بعد پہلے تو بہت پر سکون گزرے لیکن چند روز بعد ہی بھا بھی حمیرا کی اصلیت سامنے آنے لگی

گالی گلوچ لڑائی جھگڑا گھر کا معمول بن گیا جب جی کرتا گھر سے نکل جاتی جب جی چاہتا واپس آ جاتی اور بات اس حد تک پہنچ گئی کہ رات کو گھر سے باہر رہنا بھی اپنا معمول بنا لیا۔ اب مبشر کی شادی کو تین سال گزر چکے تھے مبشر کے ہاں ایک ننھی نورالعین اور حسان احمد بھی پیدا ہو چکے تھے لیکن حمیرا کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی

مبشر الیکٹریشن تھے اور بمشکل 7 سے 8 ہزار ماہانہ کما رہے تھے مشکل کے اس دور میں کوئی اپنا ساتھ دینے والا نہ تھا ہر کوئی بس ہماری بربادی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اور پھر 2014 میں مبشر نے حمیرا کو ان کی حرکات کی وجہ سے حقوق زوجیت سے فارغ کر دیا۔ حمیرا کے جانے کے بعد گھر میں جیسے سکون سا ہو گیا تھا لیکن پھر زندگی نے ایک اور کروٹ لی جب مبشر نے جیسے تیسے کر کے کچھ رقم کا بندوبست کیا اور بیرون ملک محنت مزدوری کے سلسلے میں چلے گئے

اس وقت سعودی عرب کے حالات بہت خراب تھے بن لادن کمپنی کے ملازمین کو نکالا جا رہا تھا مشکل کی اس گھڑی میں مبشر کے کندھوں پر بوجھ کسی طرح بھی کم نہ ہوا معذور والدہ اور بوڑھے باپ کا سہارا بننے کے لیے ہر مشکل سے ٹکر لی اور اپنے پاوں مضبوط کیے مبشر کو ابھی گئے ہوئے سال بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک مشکل ہم پر آ چھپٹی جب حمیرا نے بچوں کے خرچ کے لیے کورٹ میں کیس دائر کر دیا  جس کے لیے مبشر نے مجھے مختار خاص مقرر کیا

گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذمہ داری بھی نبھانا ضروری تھا اور مبشر نے  اس زمہ داری کو بھی نبھانا شروع کیا عدالت نے عارضی خرچہ 4000 روپے مقرر کیا جو کہ بچوں کی عمر کے مطابق بہت مناسب تھا بچوں کی ضروریات بھی پوری ہو رہی تھیں اور ہمارے گھر کا چولہا بھی جل رہا تھا ہم نے ہر لحاظ سے سچ پر قائم رہنے کی ٹھانی کیوں کہ ہمیں یقین تھا کہ جیت سچ کی ہی ہوگی مگر دو سال گذرنے کے بعد جب فیصلے کا وقت آن پہنچا تو اس وقت کے جج جناب افضال احمد ثاقب نے فیٖصلہ سناتے ہوئے دونو بچوں کا دس ہزار روپے خرچ مقرر کر دیا۔

بچے برائے نام سے ایک سکول میں پڑھتے تھے جس کی فیس 1200 روپے سے زائد نہ تھی اور ان کا ماہانہ خرچ بھی اتنا زیادہ نہ تھا کیوں کہ سکول گھر کے پاس ہی تھا۔ ( اس دورانیے میں حمیرا مزید تین شادیاں کر چکی تھی مبشر سے طلاق کے بعد بھابی نے ایک شادی جو اب منظرِ عام پر آئی ہے کی جس کے بعد تیسری شادی کی اور تین ماہ بعد ہی ایک بچہ پیدا ہو گیا جو اس کے موجودہ شوہر کا نہ تھا جب اس کا بھید اس تیسرے شوہر پر کھلا تو اس نے فوراً طلاق دے دی اور بھابی نے دورانِ عدت ایک اور شادی کر لی جس کے ساتھ ابھی بھی وہ رہ رہی ہے ان سب شادیوں کے ثبوت بھی عدالت میں جمع کروائے گئے) اور باقی پیسوں سے ان کا خرچ پورا ہو سکتا تھا۔

جج نے غیر منصفانہ رویہ اپناتے ہوئے اور حمیرا کے کردار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا اور ڈگری بھی 2014 جس وقت مبشر اور حمیرا میں علیحدگی ہوئی تھی تب سے ڈالا اس وقت بچوں کی عمر اتنی نہ تھی کہ ان کا 5000 روپے فی کس مقرر کر دیا جائے جس کی رقم اب چار لاکھ کے قریب بن رہی ہے اور ماہا نہ خرچ 14500 سے زائد بن رہا ہے۔ مبشر کی تنخواہ تقریباً چالیس ہزار بن رہی تھی لیکن اس میں سے مبشر سعودی گورنمنٹ کو بھی کچھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی ضروریاتِ زندگی کی مد میں بھی استعمال کر رہے جو سب کچھ ملا کر 20000 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔

ایسے میں اگر مبشر 14500 خرچ کی مد میں دے دیں تو وہ اپنی زندگی اور والدین کی زندگی کے لیے نہ ہونے کے برابر رقم بچا سکتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس ایک ہی آپشن موجود تھی کہ ہم عدالت کے فیصلے کو سیشن کورٹ میں چیلنج کر دیں  جو ہم نے کیا لیکن ساتھ ہی حمیرا نے خرچے میں اضافے کی اپیل کر دی اس میں بھی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھی سیشن جج نے کل مورخہ 12-12-2018 کودونوں اپیلوں کو تو خارج کر دیا لیکن پچھلی عدالت کا فیصلہ بھی برقرار رکھا جس کے مطابق ہمیں مبشر کو موجودہ 14500 روپے دو بچوں کے خرچ کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔

ایسے لرزہ خیز فیصلے کے بعد میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا مبشر کو اپنی زندگی میں دوبارہ شادی کرنے کا کوئی حق نہیں؟ یا اس کی ذندگی اس ایک تلخ تجربے کے بعد ختم ہو جاتی ہے؟ جبکہ حمیرا تین مزید شادیاں کر چکی ہے۔ کیا اس کا کیریکٹر کوئی معنی نہیں رکھتا؟ اب ہم کیا کریں جب ہمارے پاس گھر کا خرچ بھی نہ ہے اور ہم اگر اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہیں تو اس کے لیے بھی لاکھوں روپے درکار ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔

اگر اسی فیصلے پر اکتفا کر لیں تو ہم 4 لاکھ روپے سابقہ خرچ کہاں سے ادا کریں؟ اور ہر ماہ 14500 روپے خرچ جو کہ سالانہ ٪10 کی شرح سے بڑھے گا وہ ہم کیسے ادا کریں گے؟ اس غیر منصفانہ فیصلے کے بعد یہی آپشن ہےکہ یا تو مبشر ساری زندگی باہر بیٹھ کر کماتا رہے اور اپنے بوڑھے والدین کی کفالت اور گھر کی دیگر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے اوربچوں کو خرچ کی مد میں یہ رقم ادا کرتا رہے۔ یا پھران سب زمہ داریوں سے بھاگ جائے اور اس ملک کی جیل کو اپنا مقدر سمجھے؟

آپ لوگوں سے اپیل ہے کہ میری آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانے میں میری مدد کریں اور ساتھ ہی عدلیہ  کی طرف سے ہونے والے اس انصاف کو عدلیہ کے ٹھیکیداروں تک بھی پہنچائیں تاکہ ہمارے ساتھ ہونے والے اس ظلم  کا نوٹس لیا جا سکے۔  شکریہ

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: