Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.
پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک مین ہوتا ہے جہاں پر پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کے مطابق نوۓ فی صد تک بچے غذائی کمی کا شکار ہیں انہیں ان کی ضروریات کے مطابق وہ غذا نہیں مل رہی ہے جس سے ان کے جسم کی نشونما بہتر اور مکمل ہو سکے ایسے ہی بچوں میں سے ایک معصوم کنزہ بھی ہے
آج کل سوشل میڈیا پر دو بچوں کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں ایک تو معصوم احمد ہے جس کی ویڈيو اور اس کی حرکتیں دیکھ کر ہر کوئی اس کو بے ساختہ پیار کرنے پر مجبور ہے اور دوسری بچی کنزہ ہے جو کہ گزشتہ تین سالوں سے راولپنڈی کے ایک گھر میں صرف پانچ ہزار کی قلیل رقم کے عوض دن رات ایک گھرانے کے پاس ملازمت پر مجبور ہے
شاید ہم جیسوں کو کنزہ کے بارے میں کبھی پتہ نہ چل سکتا اگر اس کی ویڈيو سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوتی کنزہ کا سب سے بڑا قصور اس کی غربت تھی جس کے سبب سمندری سے تعلق رکھنے والے اس کے ماں باپ نے اس کو ایک پڑھی لکھی فیملی کے حوالے کر دیا یہ خاندان جو راولپنڈی کے علاقے ولایت کالونی میں ایک خاتون سرکاری افسر عمارہ ریاض اور ان کے خاوند ڈاکٹر محسن پر مشتمل تھا
معصوم کنزہ کے والدین کو اس بات کا علم نہ تھا کہ جن لوگوں کو وہ تعلیم یافتہ سمجھ کر اپنی بیٹی ان کے حوالے کر رہیے ہیں درحقیقت اندر سے جاہلوں سے بھی زیادہ بدتر ہیں معصوم کنزہ کے مطابق نوکری کا پہلا سال تو عافیت کے ساتھ گزرا مگر اس کے بعد ان میاں بیوی نے اس کو بات بے بات تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا
معصوم کنزہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تشدد کی سب سے بڑی وجہ اس کا چوری کرنا ہوتا جو کہ وہ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر کرتی تھی کیوں کہ یہ لوگ اس کو پیٹ بھر کھانا نہیں دیتے تھے اس وجہ سے وہ بسکٹ ، دال موٹھ یا پھر جوس وغیرہ چوری کر کے کھا لیتی تھی جس کے بعد اس کو بہت شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا
اس تشدد سے پریشان کنزہ ایک دن موقع پا کر جب گھر کا دروازہ پھلانگ کر گھر سے بھاگی تو اس کی اس حالت کو دیکھتے ہوۓ کچھ لوگوں نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی اس ویڈيو کے وائرل ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں اگۓ اور انہوں نے کنزہ کے والدین کا پتہ لگا کر کنزہ کو بھی سمندری کے علاقے سے برآمد کروا لیا ہے اور اس کے بیانات کی روشنی میں اس جوڑے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاذ کر دیا ہے
A police team has been sent to Sumandri to bring back the child and her parents. After Medical examination an FiR will be registered. Army has also been informed as the suspect is an Army doctor. We are keeping a close eye to ensure justice for the little girl https://t.co/Agt6Xn3soh
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) October 20, 2018
اس حوالے سے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اپنے ٹوئٹ میں ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کا عندیہ دیتے ہوۓ کہا ہے اس بچی کے والدین پر دباؤ ڈال کر اسٹامپ پیپر پر بیان لیا گیا ہے جس کے بارے میں بھی تحقیقات کی جاۓ گی اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کاروائی ہو گی
Unfortunately when the poor parents of young girls like Kenza come under pressure, they give affidavits like the one given by Kenza’s father stating that she was injured due to falling from the gate of the house. pic.twitter.com/U3UwWYCQkJ
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) October 20, 2018
دوسری جانب شیریں مزاری نے اپنے ٹوئٹ میں پولیس کی ابتدائی رپورٹ کا عکس بھی پیش کیا ہے جس میں ابتدائی تفتیش کے مطابق کنزہ کے باپ نے یہ اقبالی بیان دیا ہے کہ انہوں نےاپنی بیٹی کو تعلیم کے لیۓ اس خاندان کے حوالے کیا تھا مگر اس کے اس بیان سے کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے اس بچی پر تشدد کا اختیار ان ظالم لوگوں کو دیا تھا
The police report on the Kenza case just to assure everyone action is being taken by the police. pic.twitter.com/WMuJOdXQL1
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) October 20, 2018
مالدار اور بااثر لوگوں کے ظلم کا شکار کنزہ یہ پہلی بچی نہیں ہے بلکہ امیر گھرانوں میں اس طرح کی معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم کے ایسے کئی واقعات سامنے اچکے ہیں
مگر ان افراد کے با آثر ہونے کے سبب کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں مل سکی اب یہ کیس نۓ پاکستان بنانے کا دعوی کرنے والوں کے لیۓ امتحان ہے دیکھتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں کہاں تک پورے اترتے ہیں