Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.
لاہور میو زیم کا شمار پاکستان کے قدیم ترین میوزیم میں ہوتا ہے جہاں پر ادب کے اور پاکستانی تاریخ سے جڑے بہت سارے شاہکار موجود ہیں جو دیکھنے والوں کی دلچسپی کا سامان بننتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں لاہور میوزيم بیس فٹ اونچے ایک شیطانی مجسمے کے سبب ملک بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کچھ لوگون کے مطابق یہ مجسمہ یہودیوں کے خدا بفومیٹ کا مجسمہ ہے جس کو دجال بھی کہا جاتا ہے
یہ مجسمہ پنجاب یونی ورسٹی فائن آرٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک ڈگری یافتہ ارتباط الحسن کے تھیسز کا پروجیکٹ تھا جو کہ بیس فٹ اونچا تھا اور جگہ کی کمی کے سبب پنجاب یونی ورسٹی کی انتظامیہ نے عارضی طور پر لاہور میوزیم کے باہر رکھوا دیا تھا جس کو بعد ازاں وہاں سے منتقل کر دینا تھا مگر اس مجسمے کے وہاں ہونے سے عوامی راۓ عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئي
ایک جانب تو عنبرین قریشی نامی ایک وکیل نے لاہور ہائي کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر دی جس میں فاضل جج سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ایک تو میوزیم کی سیر کو آنے والے بچے اس مجسمے کو دیکھ کر خوفزدہ ہو رہے ہیں جب کہ دوسری جانب یہ شیطانی مجسمہ عوام کے اندر شیطانی خیالات اور جزبات کے فروغ کا سبب بن رہا ہے جس پر جج نے نہ صرف وکیل کی تعریف کی بلکہ فوری طور پر اس مجسمے کی منتقلی کا حکم بھی دے دیا
کیا “بفومیٹ” بنانا محض ایک پروجیکٹ تھا؟
یہ رہی صیہونی خدا بفومیٹ کی پاکستان میں لانچنگ تقریب. جو لوگ کہہ رہے تھے یہ محض ایک طالب علم ارتبت کی تھیسز کا پروجیکٹ تھا، ان کو یہ وڈیو دیکھ کر اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیں. pic.twitter.com/30IGcjedIh
— Uzair Chaudhary (@UzairCh07) January 18, 2019
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں یہودیوں کے خدا بفومیٹ کے مجسمے کی رونمائی کی تقریب دکھائی جا رہی ہے اور بفومیٹ اور اس شیطانی مجسمے میں بہت زیادہ مشابہت دیکھنے میں آرہی ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہو رہی ہے کہ یہ مجسمہ درحقیقت یہودیوں کے خدا بفومیٹ کا ہی ہے
MUBARAK HO!!! The demonic statue outside Lahore museum has been covered up after the honourable judges of the LHC took up a petition against it! CJ Khosa, who wants to build a dam against frivolous petitions, has his work cut out for him. pic via @khurram_dogar pic.twitter.com/gkIj9aBN2d
— Zarrar Khuhro (@ZarrarKhuhro) January 18, 2019
تیسری جانب اس مجسمے کے خالق ارتباط الحسن کا یہ کہنا ہے کہ ہم میں سے کسی نے بھی شیطان کو نہیں دیکھا یعنی کوئی یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ شیطان کیسا ہوتا ہے وہ کیسا دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ مجسمہ انسانیت اور حیوانی جذبات کی عکاسی پر مشتمل ہائیبرڈ تھیسس ہے۔ جانور اور انسان کے مابین فرق بڑا واضح ہے۔ جرمن ماہر فزکس کارسٹن بریش کے مطابق انسان حیوانوں کی سلطنت سے براہ راست وارد ہوا ہے۔ دونوں کے مابین ظاہری فرق صرف عزت نفس برقرار رکھنے کی صلاحیت کا موجود ہونا ہے
جب کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مجسمے کو لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کے احکامات کے مطابق ایک سبز چادر سے ڈھک دیا گیا ہے اور اس کی منتقلی کے انتظامات کیۓ جا رہے ہیں یہ مجسمہ آرٹ کا فن پارہ تھا یا یہودیوں کی سازش یا دجال کا صیہونی روپ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے مگر اس بات کی خوشی ہے کہ ہماری قوم بت شکن قوم ہے بت پرست نہیں