Article

بھوک سے مجبور ایک ماں کی دلخراش داستان

1347 views

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo PInk will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

یا اللہ! میرے بچوں کو بھوکا مت مار، ان کو اپنے رزق سے کھانے کو تھوڑا سا اناج، پینے کو پانی، بدن کو ڈھکنے کیلئے کپڑا اور اس معاشرے میں رہنے کیلئے عزت عطا کرنا۔ میرے مولا تو ہی ہمارا پہلا اور آخری سہارا ہے، رحم فرما میرے رحمان رحم فرما

مختصر سی دعا کر کے وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوئی۔ آج پھر اس کے بچوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔

وہ دکھ اور درد میں اللہ کو یاد کرنے کے علاوہ کیا کر سکتی تھی۔ آنے والے دن کی فکروں میں گم ہوتے ہی اسے خیال آیا کہ کیوں نہ کل وہ روزہ رکھ لے۔ ویسے بھی گھر میں کھانے کیلئے تو کچھ تھا نہیں، تمام دن بھوکے رہنے سے بہتر ہے کہ روزہ رکھ لیا جائے بھوکا رہنا کام آ جائے گا عبادت میں شمار ہو گا۔

اگلے دن اس کا روزہ تھا۔ ظہر کا وقت تھا اس کی بھوک عروج پر تھی اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کیا جائے۔ افطار میں بھی کچھ نہیں تھا سوائے مٹکے کے اس پانی کے جو پچھلے ہفتے حاجی صاحب نے اپنے گھر سے بھرنے دیا تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد اس کا پانچ سالہ سب سے بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا، اس کے ہاتھ میں دو شاپر تھے۔ اس نے اپنی توتلی زبان اور نامکمل جملوں میں اپنی ماں کو بتا دیا کہ یہ کہاں سے لے کر آیا ہے جس کو وہ خود بھی نہ سمجھی تھی۔

جب اس نے شاپر میں سے کھانا برتنوں میں انڈیلا تو دو آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوئے قمیض میں جزب ہو چکے تھے۔ اسے بے ساختہ اپنے شوہر کی میت یاد آئی تھی۔ آخری بار اس کے گھر میں ایسا کھانا اس کے شوہر کی زندگی میں ہی بنا تھا۔ اس نے سارا کھانا اپنے تین بچوں کے آگے رکھ دیا جو دو دن سے بھوکے تھے۔

اس کی بھوک کی حد ختم ہو رہی تھی پیٹ میں ابال پڑ رہے تھے روزہ تھا اور روزہ توڑ بھی نہیں سکتی تھی، “اے اللہ تو بھی اپنی کس کس آزمائش میں ڈالتا ہے”، وہ دل ہی دل میں خدا سے مدد طلب کر رہی تھی۔ اس کے بچوں نے دیکھتے ہی دیکھتے سارا کھانا چٹ کر دیا۔ دو دن سے بھوکے بچوں کو اور بھی کھانا ملتا تو وہ کھا لیتے۔

اس نے بھوک اور مفلسی میں روزہ رکھ تو لیا تھا مگر اب پچھتا رہی تھی، وہ جانتی تھی کہ اس طرح پچھتانا اک گناہ ہے کیونکہ روزہ تو رب کریم کی ذات کیلئے تھا مگر اس نے اپنی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے عبادت کا نام دیا تھا۔ مگر اس کے پیٹ کی بھوک اسے یہ گناہ کرنے پر اکسا رہی تھی۔ وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ اتنے دن بعد کھانا ملا تھا اور وہ بھی روزے کی وجہ سے نہ کھا سکی۔ اس کے دل و دماغ میں ایسی ہی نہ جانے کتنی باتیں گھوم رہی تھیں۔

وہ اللہ سے بار بار مخاطب ہو رہی تھی بار بار اس کا ورد کر رہی تھی۔ آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے بھوک سے جان نکل رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں رب کائنات کے وجود اور اس کے اکبر و دانا ہونے کا اعتراف کر رہی تھی۔ وہ سمجھدار تھی اور اللہ والی تھی جانتی تھی کہ یہ اک آزمائش ہے مگر اس نے روزہ رکھ کر، لمحہ بھر کو پچھتا کر جو غلطی کی تھی اس کا اعتراف بھی کر رہی تھی۔

وہ جان گئی تھی کہ اللہ نے میرے بچوں کیلئے یہ کھانا بھیج کر مجھ پر احسان بھی کیا ہے، آزمایا بھی ہے اور ہدایت بھی دی ہے۔ اس نے سچے دل سے توبہ کی تھی۔ پھر نکھرے ہوؤں کو ہی اور نکھارا جاتا ہے۔وہ سمجھ رہی تھی اللہ کی بابرکت ذات جسے چاہے عطا کرے جسے چاہے بھوکا رکھے یہ سب اس دانا کے کھیل ہیں ہم اس کی بنائی ہوئی اک حقیر سی چیز ہیں، وہ بے شک بہترین چال والا ہے۔

یہی سوچتے سوچتے اسے نیند کی وادیوں نے گھیر لیا اور وہ سو گئی۔ مغرب کے وقت جب اسے جاگ آئی تو اس کے بیٹے نے اپنی توتلی زبان میں اسے بتایا کہ یہ کھانا حاجی صاحب کے گھر سے آیا ہے۔ کھانا دیکھتے ہی اسے خدا کے آگے سجدہ کرنے کا من کیا۔ آج وہ جی بھر کر روئی تھی اسے ہدایت مل چکی تھی۔

“اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں”

(52)سورة الشورى۔

Snap Chat Tap to follow
Place this code at the end of your tag: